گری راج’ پاکستان کے بھیج دیں‘ سنگھ خاموش‘ بی جے پی کی ریاستی یونٹ نے میرے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

سال2019کا لوک سبھا الیکشن۔ ہندوتوا کے پوسٹر بوائی گری راج سنگھ اپنی ہی پارٹی کی اتحادی ایل جے پی سے مایوس ہیں‘ جس کو این ڈی اے سیٹوں کی تقسیم معاہدے کے تحت نواڈا کی سیٹ دیدگی گئی ہے وہ ان کے لئے سیٹ چھوڑنے کو تیار تھی۔

بہار۔ سال 2013میں سب سے پہلے برسرعام نریند ر مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بولنے والے پہلے لیڈر‘ ان کی حکومت میں سب سے زیادہ متنازعہ بیان دینے والے منسٹر بنے ‘ جنھیں ان کے مشہور تنقیدی جملے ’’ انہیں پاکستان بھیج دیں‘‘ کو یاد کیاجاتا ہے۔

مگر پارٹی کی جانب سے بیگوسرائے لوک سبھا سیٹ پر ان کی امیدواری کے متعلق پارٹی کے اعلان کے تین روز بعد گری راج سنگھ اب بھی نئے دہلی میں ہے ‘ اور مذکور ہ سیٹ سے مقابلے کے لئے دماغ بنارہے ہیں۔

وہ اپنے ’’ وقار‘‘ کا حوالہ دے رہے ہیں‘ اور اس بات سے مایوس ہیں کہ پارٹی نے بناء ان کی رائے جانے نواڈا سے ہٹاکر انہیں بیگوسرائے پہنچا دیا ہے۔

سنگھ نے انڈین ایکسپرس سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ بہار کی سیٹ تبدیلی کے ضمن میں یہ ایک بڑا مذاق بن گیا ہے کہ گری راج انہیں پاکستان پاکستان بھیج دیں سنگھ خاموش بیٹھا رہے۔

یہ کام ریاست کی میری پارٹی قیادت نے کیاہے ‘ جس نے بہار میں کسی بھی موجودہ ایم پی کو تبدیل نہیں کیا‘ مجھ سے رائے تک نہیں لی ( سیٹ تبدیلی سے قبل) ۔میرے وقار کوٹھیس پہنچی ہے۔ میں بی جے پی کی مرکزی قیادت کے قطعی خلاف نہیں ہوں۔

ریاستی قیادت نے مذکورہ مذاق کے ذریعہ میرے اعزاز او روقار کو ٹھیس پہنچائی ہے‘‘۔

تو بیگوسرائے سے وہ مقابلہ کریں گے یا مقابلہ نہیں کرے گے؟۔ انہوں نے کہاکہ ’’ میں ابھی نہیں جانتا۔ بیگوسرائے میرے جائے پیدائش ہے اور کرم بھومی ہے اور یہ میرے لئے امتیاز ہے۔ مگر جب میرے امتیازاور اعزاز کی بات یکجہ ہوجاتی ہے تو میں سونچنے پر مجبور ہوجاتاہوں۔

میں جانا چاہتاہوں میرے ساتھ ایسا کیوں کیاگیا۔ ریاستی قیادت میں میرے ساتھ ایسا کیاہے توانہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ میرے اعزاز کیسے کریں‘‘۔

ہندوتوا کے پوسٹر بوائی گری راج سنگھ اپنی ہی پارٹی کی اتحادی ایل جے پی سے مایوس ہیں‘ جس کو این ڈی اے سیٹوں کی تقسیم معاہدے کے تحت نواڈا کی سیٹ دیدگی گئی ہے وہ ان کے لئے سیٹ چھوڑنے کو تیار تھی۔

انہوں نے کہاکہ ’ ’چراغ پاسوان نے مجھے فون پر بتایا کہ ان کی پارٹی میرے لئے نواڈا سیٹ چھوڑنے کو تیار ہے۔بی جے پی کے ریاستی صدر نے بھی کہاکہ اگر میں چاہوں تو سیٹ سے مقابلہ کرسکتاہوں

۔چراغ پاسوان نے بھی کہاکہ وہ میرے لئے چھور دیں گے مگر میں کیاکروں این ڈی اے کو لاکر میری گود میں بیٹھا دیا۔ اس کی وجہہ سے مجھے تکلیف ہوئی ہے‘‘۔سنگھ کی پریشانی کی وجہہ ہے۔

بھومیر کمیونٹی کی وہ نمائندگی کرتے ہیں جن کی ریاست میں تین سے چار فیصد آبادی ہے۔ مذکورہ کمیونٹی بی جے پو مضبوط کرنے کے لئے ووٹ دیتی ہے‘ اور کچھ حلقوں میں جیسے نواڈا ‘ بیگوسرائے اور جہان آباد میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بھولا سنگھ نے بیگوسرائے سے58,000کی اکثریت سے جیت حاصل کی تھی۔

مگر اس وقت سی پی ائی جس نے بیگوسرائے میں2014میں1.9لاکھ ووٹ لئے تھے‘ نے کنہیا کمار کو اپنا امیدوار بنایا ہے‘ وہ بھی ایک بھومیار ہیں۔مذکورہ حلقہ میں بڑی تعداد میں مسلم ووٹس بھی ہیں‘ جس کو سنگھ ہمیشہ نشانہ بناتے رہتے ہیں جو کبھی ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔

سنگھ کے ساتھیوں کو خوف ہے کہ بیگوسرائے میں بھومیار اور مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہہ سے انہیں سیٹ کا نقصان ہوگا۔سنگھ کے نتیش کمار سے بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں۔

وہ کمار کی قیادت میں جے ڈی( یو) بی جے پی اتحادی حکومت میں ایک منسٹر بھی تھے‘ مگر وہ نریندر مودی نے ان کے انتظامیہ کے متعلق ناراضگی کی بات کی اور 2013میں برسرعام بی جے پی کی جے ڈی(یو) کے ساتھ علیحدگی پر ستائش کی تھی۔

سنگھ او ربہار کے بی جے پی لیڈر سوشیل کمار مودی کے درمیان بھی تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ مگر امیت شاہ او رمودی کی حمایت کے ساتھ سنگھ اپنے راستے پر گامزن تھے۔

اس ماہ کی ابتدائی میں جب پٹنہ کے گاندھی میدان میں مودی ایک عوامی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے تو سنگھ شہہ نشین پر موجود نہیں تھا ‘ اس وقت یہ قیاس لگایاگیاتھا کہ جے ڈی ( یو) کی ایما پر انہیں اسٹیج پر نہیں بلایاگیا ۔

سنگھ نے کہاکہ یہ صحیح نہیں ہے ‘ اور اسوقت ان کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ انہوں نے استفسار کیاکہ ’’مودی موجود ہوں اور شہہ نشین پر کیاکسی میں ہمت ہے مجھے کرسی دینے سے انکار کرے ‘