گردوں کے سرطان کیلئے دو نئی ادویات دریافت

ماہرین نے کہا ہے کہ گردوں کے بڑھے ہوئے سرطان کیلئے دو نئی ادویات سے اس مرض کا علاج بدل کر رہ جائے گا۔ دونوں ادویات نے کئی تجربات میں مریضوں کی شرحِ بقا میں اضافہ کیا۔ یہ تحقیق نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔ ایک دوا جسم کے مدافعتی نظام پر لگی ’بریک‘ ہٹا دیتی ہے جس سے وہ زیادہ فعال ہو جاتا ہے، جب کہ دوسری رسولی کے اندر پھیلاؤ کے سگنل روک دیتی ہے۔ ادارہ ’کینسر ریسرچ یو کے‘ کے مطابق اس پیش رفت سے سرطان کا مقابلہ کرنے کیلئے نئے ہتھیار میسر آ گئے ہیں۔ گردوں کا سرطان برطانیہ میں آٹھوں سب سے عام سرطان ہے۔ اگر یہ سرطان جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جائے تو پھر تشخیص کے پانچ سال کے بعد دس میں سے ایک مریض ہی زندہ بچتا ہے۔ پہلا تجربے کو ’چیک میٹ 025‘ کا نام دیا گیا جس میں مدافعتی نظام پر اثرانداز ہونے والی دوا نیولومیب استعمال کی گئی۔ اس دوا کی خاصیت یہ ہے کہ اگر سرطان جسم کے مدافعتی نظام کو ’آف‘ کر دے تو یہ اسے دوبارہ ’آن‘ کر دیتی ہے۔ اس قسم کی ادویات پہلے ہی جلد اور پھیپھڑوں کے سرطان میں موثر ثابت ہو چکی ہیں۔ اس تجربے میں 821 مریض شامل تھے۔ عام علاج سے مریضوں کی زندگی میں 19.6 ماہ کا اضافہ ہوا، جب کہ نیولومیب لینے والے مریضوں میں 25 مہنیے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رائل مارسڈین ہسپتال کے ڈاکٹر جیمز لارکن نے بتایا کہ یہ سرطان کے علاج، اور بالخصوص گردوں کے سرطان کے علاج میں اہم پیش رفت ہے۔ ’میٹی اور‘ نامی دوسرے تجربے میں 658 مریضوں پر کیبوزینٹی نیب نامی دوا آزمائی گئی۔ اس نے شرحِ بقا میں تقریباً دوگنا اضافہ کیا، یعنی 3.8 ماہ سے بڑھا کر 7.4 ماہ۔ اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کینسر ریسرچ یو کے کے ڈاکٹر ایلن ورسلی نے کہا کہ گردوں کے بڑھے ہوئے سرطان کا علاج ایک عرصے سے بہت مشکل رہا ہے۔ ان دونوں تجربات میں آزمائی جانے والی ادویات گردوں کے سرطان کی روایتی دوا ایورولیمس سے بہتر دکھائی دیتی ہے اور ان کے مضر اثرات بھی کم ہیں۔