گجرات کانگریس میںبحران

وحشتِ دل کا اک ایسا بھی زمانہ گزرا
جو ترے ساتھ رہے وہ بڑی مشکل میں رہے
گجرات کانگریس میںبحران
وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کیلئے مشکلات پیدا ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ ویسے تو ریاست میںپندرہ سال سے بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے اور وہاں کانگریس کی دال نہیںگل رہی ہے ۔ اس بار ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس پارٹی کچھ حد تک یہاںاپناکھویا ہوا وقار بحال کریگی اور اگر پارٹی کی جانب سے بہتر اور منظم انداز میں انتخابی مہم چلائی گئی اور سارے پارٹی کارکن متحد ہوکر جدوجہد کریںتو شائد بی جے پی کو اس کو مرکز میںاقتدار دلانے میں اہم رول ادا کرنے والی ریاست گجرات میں کانگریس پارٹی شکست دینے میں کامیاب ہوجائے ۔ لیکن ایسے حالات پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں جن کے تحت حالات کانگریس کیلئے مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ یہاںکانگریس کے سینئر اور مقبول سمجھے جانے والے لیڈر شنکر سنہہ واگھیلا جو گذشتہ کچھ وقت سے پارٹی سے ناراض تھے اور وقت بے وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کو بے چین تھے وہ کانگریس کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس پارٹی میں انہیںچیف منسٹری کا امیدوار قرار دیدیا جائے ۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات جو ماہ نومبر میں منعقد ہونے والے ہیں وہ ان کی قیادت میںلڑے جائیں۔ وہ امیدواروں کے انتخاب میں بھی اپنی مرضی پارٹی پر مسلط کرناچاہتے تھے ۔ یہ درست ہے کہ وہ مقبولیت میںشائد دوسرے قائدین سے قدرے آگے ہوں لیکن انہیں یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہئے تھی کہ وہ پیدائشی کانگریسی نہیںہیں۔ وہ بی جے پی کے سینئر لیڈر رہ چکے ہیں اور پارٹی سے اخراج کے بعد انہوںنے اپنی سیاسی بقا کیلئے کانگریس کا سہارا لیا تھا ۔ جب وہ بی جے پی میں تھے تب انہوں نے اسی کانگریس کے خلاف جو کچھ ان سے ممکن ہوسکتا تھاوہ کیا تھا ۔ا ب وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس وہ سب کچھ فراموش کردے اور انہیں پھر سے ایک بار پھر اپنا لیڈر بناکر پیش کرے ۔ کانگریس کی مرکزی قیادت کو ایسا لگتا ہے کہ شنکر سنہہ واگھیلا کی تنہا مقبولیت پر بھروسہ نہیں ہے ۔ پارٹی پنجاب میں جس طرح کیپٹن امریندر سنگھ پر تکیہ کرچکی تھی وہ اس طرح گجرات میں شنکر سنہہ واگھیلا پر نہیںکرنا چاہتی تھی حالانکہ پنجاب میں اس کا تجربہ کامیاب رہا تھا ۔
کانگریس پارٹی کی مرکزی قیادت کو یہ احساس ہے کہ گجرات یونٹ میںپارٹی وہ سینئر قائدین بھی ہیںجنہوں نے ابتداء سے پارٹی کا ساتھ دیا تھا ۔ پارٹی گذشتہ پندرہ سال سے یہاںاقتدار سے باہر ہے اس کے باوجود یہ قائدین کانگریس کے ساتھ رہے اور انہوںنے بی جے پی کے ریاستی اور اب مرکزی اقتدار کا بھی پورے استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا ہے ۔ اس کی مخالف عوام پالیسیوں کو اجاگر کرنے میں انہوں نے سرگرم حصہ ادا کیا ہے ۔ اس صورتحال میںکانگریس پارٹی ان قائدین کی ناراضگی مول لینے کو تیار نہیں تھی اور نہ پارٹی ان قائدین کا حق مارنے کو تیار تھی ۔ کانگریس کی مرکزی قیادت کی جانب سے شنکر سنہہ واگھیلا کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ان کے ساتھ مہلت کا طریقہ کار اختیار کیا گیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ شنکر سنہہ واگھیلا ذاتی مفادات کی تکمیل کو ہی اولین ترجیح دیتے ہیں اور ان کے سامنے نظریات یا پارٹی کے مفادات کی زیادہ کچھ اہمیت نہیں ہے ۔ وہ چاہتے ہیںکہ کانگریس پارٹی ریاست میں ان کی شخصیت کے گرد ہی گھومتی رہی اور اگر اس سے دوسرے ناراض ہوتے ہیں تو اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ کانگریس پارٹی ان کی اس آمرانہ روش کو قبول کرنے تیار نہیں تھی ۔ نتیجہ یہی سامنے آرہا ہے کہ واگھیلا پارٹی سے بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ کانگریس پارٹی نے انہیں ایک دن قبل ہی پارٹی سے خارج کردیا ہے جبکہ کانگریس اس مسئلہ پر خاموش ہے ۔
واگھیلا اب کانگریس اور بی جے پی دونوںکو تنقید کا نشانہ تو بنارہے ہیںلیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ دوبارہ بی جے پی کے ساتھ ہوجائیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ 77سال کی عمر میں بھی وہ ابھی سیاست سے سبکدوش ہونے تیار نہیںہیں اور وہ قسمت آزمائی کرینگے ۔ یہ جو صورتحال اب شنکر سنہہ واگھیلا کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اس سے بی جے پی کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے ۔ ریاست میں جو صورتحال کانگریس کیلئے سازگار ہوتی نظر آ رہی تھی وہ اب اس کیلئے مشکلات کا باعث بننے لگی ہے ۔ کانگریس کیلئے اس اختلاف اور نتیجہ میں ہونے والی بغاوت کی وجہ سے ریاست میں بی جے پی کا مقابلہ کرنا آسان نہیںرہ جائیگا ۔ اس سے کانگریس کے انتخابی امکانات یقینی طور پر متاثر ہونگے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس پارٹی اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ابھی سے تیاریاںکرے اور یہ کوشش کرے کہ واگھیلا کی وجہ سے جو نقصان ہوسکتا ہے وہ کم سے کم رہ جائے اور پارٹی کے انتخابی امکانات زیادہ حد تک متاثر نہ ہونے پائیں۔