گجرات میں ہندی بولنے والوں پر حملے

گجرات میں شمالی ہند کے باشندوں کو خوف و ہراس کا سامنا ہے یہ لوگ روٹی روزی کی خاطر گجرات میں مقیم تھے لیکن گجراتیوں کی دھمکیوں نے انہیں اپنی وطنی ریاستوں کو واپس ہونے کے لیے مجبور کردیا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو مہاراشٹرا کے ممبئی شہر میں ماضی کا حصہ بنی تھی ۔ مہاراشٹرا نونرمان سینا کے لوگوں نے اترپردیش ، بہار اور دیگر ریاستوں سے آنے والے باشندوں کو چن چن کر نشانہ بنایا تھا ۔ ریاستی حکومت کی خاموشی پر ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردیا گیا تھا ۔ یہی کیفیت گجرات میں دہرائی جارہی ہے ۔ ہندی بولنے والے مزدوروں کو بڑے پیمانہ پر نقل مکانی کرنی پڑی ہے ۔ ریاست اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ گجرات کی موجودہ فضا کے لیے اگر اس پارٹی کو ذمہ دار بتایا جائے تو پھر حکومت کا فرض ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر کی برقراری کو یقینی بنائے ۔ ہندی بولنے والے افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے فوری کارروائی ہونی چاہئے لیکن گجرات کے کئی حصوں میں ان پر حملے جاری ہیں ۔ گھروں پر پہونچکر بعض لوگ ریاست چھوڑ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ گجرات میں پولیس کا وجود صرف مقامی افراد خاص کر قانون شکنوں کے تابع رہتا ہے تو یہ افسوسناک بات ہے ۔ گجرات کی پولیس اور قانون کے رکھوالوں نے 2002 میں اپنی شبہیہ ساری دنیا میں واضح کردی تھی ۔ پولیس اور حکومت کی ایک ایسی شبہیہ وجود میں آئی تھی جو آج تک بلکہ بہار اور یو پی کے تارکین وطن مزدوروں کا تعاقب کرتے ہوئے اس شبہیہ کو پھر اجاگر کررہی ہے ۔ چیف منسٹر گجرات وجئے روپانی نے ان واقعات کو روکنے کے لیے اپنی حکومت کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپوزیشن کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنانے میں ہی وقت ضائع کیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ریاست کے کئی علاقوں سے اپنی جان بچا کر واپس ہونے والے غیر گجراتیوں کو تحفظ کا یقین دلاکر روکنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ مضحکہ خیز رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ اپنی ریاستوں کو تہوار اور دسہرہ منانے جارہے ہیں ۔ گجرات میں حکومت کی جانب سے جہاں تک ’ راج دھرم ‘ نبھانے کا سوال ہے یہ اصول نہ تو 2002 میں اختیار کیا گیا اور نہ ہی بعد کے برسوں میں راج دھرم دیکھا گیا ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران بھی اس وقت کی واجپائی حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ مرکز کی ذمہ داری پوری کرے ۔ واجپائی نے گجرات کی مودی حکومت سے خواہش کی تھی کہ راج دھرم پر عمل کرنے کو یقینی بنائے لیکن آج تک سیاسی مفاد پرستی کا ہی مظاہرہ ہوتا رہا ہے ۔ گجرات میں غیر مقیم تارک وطن مزدوروں کے خلاف نفرت بھڑکانے کا کام کرنے والے شرپسندوں کی گرفتاری کا دعویٰ کرنے والی پولیس نے گجرات سے چلے جارہے ہزاروں مزدوروں کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ ہندوستانیوں کو مختلف خانوں میں بانٹنے کا کام کرنے والے سیاستدانوں کو منتخب کرنے کی غلطی کون کررہا ہے یہ غور کرنا آج کے باشعور عوام کی ذمہ داری ہے ۔ ملک کے ہر شہری کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اس کے حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہم آہنگی میں اس ملک کی بقاء ہے ۔ ملک کے کسی حصہ کے لوگ دوسرے حصہ کے عوام سے نفرت کرنے لگیں تو پورا ملک کبھی بھی سکون کی نیند نہیں سوسکے گا ۔ سیاستدانوں کی چال کا شکار ہو کر لوگ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کرتے رہیں گے تو پھر وہ بھی وقت آنے پر سکون کی راحت حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ جو لوگ شرپسند سیاستدانوں کے اشاروں پر رات بھر جاگ جاگ کر ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ایک وقت طرح طرح کے نفسیاتی امراض اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج گجرات کے اندر نفسیاتی امراض کا شکار لوگ ہی الجھن کا شکار ہو کر دیگر ریاستوں کے عوام پر حملے کررہے ہیں ۔ یہ فرقہ پرستوں کی پسماندہ ذہنیت کا ثبوت ہے کہ آج ملک کے اندر ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی نفسیات میں مبتلا کر کے اپنے سیاسی مفادات کی پوجا کررہے ہیں ۔ ان نفرت پھیلا کر سیاست کرنے والوں پر یقین کرنے والے اور ان کا ساتھ دے کر انہیں منتخب کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں ۔۔