گجرات میں غیر مقامی افراد پر حملے

ہمارے نام ہیں کندہ یہاں کے سکّوں پر
وطن سے عشق کا اِک اعتبار ہیں ہم لوگ
گجرات میں غیر مقامی افراد پر حملے
وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کی آبائی ریاست گجرات میں شمالی ہند کے باشندوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ علاقائی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے ماحول کو بگاڑدیا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ گجرات کا تخلیہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو شمالی ہند کی ریاستوں سے تلاش روزگار میں یہاں آئے تھے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے واقعات ملک کی کسی ریاست میں پہلی مرتبہ پیش آ رہے ہوں۔ اس سے قبل مہاراشٹرا میں اسی طرح کی مہم شروع کی گئی تھی ۔ راج ٹھاکرے کی قیادت والی مہاراشٹرا نو نرمان سینا کی جانب سے شمالی ہند اور خاص طور پر اترپردیش اور بہار سے تعلق رکھنے والے افراد کو سارے مہاراشٹرا اور خاص طور پر ممبئی میں حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کے کاروبار کو تہس نہس کردیا گیا تھا ۔ وہاں سے بھی ہزاروں افراد تخلیہ کرکے اپنے آبائی مقامات کو روانہ ہونے کیلئے مجبور کردئے گئے تھے ۔ اس وقت کئی قومی جماعتوںاور سیاسی قائدین کی جانب سے راج ٹھاکرے اور ان کی پارٹی کی جانب سے شروع کردہ مہم کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا تھا اوریہ واضح کیا گیا تھا کہ ہر ہندوستانی کو ملک کے کسی بھی مقام اور شہر میں جانے ‘ رہنے بسنے اور تلاش معاش کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔ اسی طرح اب گجرات میں عصمت ریزی اور قتل کے ایک واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ ایک دو واقعات کی آڑ میں صنعتوں میں مقامی افراد کو روزگار فراہم کرنے کے نعرے پر شمالی ہند کے باشندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ یہ افراد مبینہ طور پر قانون شکن سرگرمیوں میںملوث رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مقامی افراد کو روزگار حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ لوگ آسان کاروبار ا ور ملازمتوں میں مقامی افراد کا حق تلف کر رہے ہیں اور ایک کے بعد دیگر ے ان کی آمد سے مقامی افراد کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس طرح کے حملوں نے شمالی ہند کے باشندوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا ہے اور یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں گجرات کو چھوڑ کر اپنے آبائی مقامات کو واپس ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اس مسئلہ کو اب سیاسی رنگ بھی دیا جا رہا ہے ۔ جہاں بی جے پی اس مسئلہ پر کسی طرح کی لب کشائی کرنے سے گریز کر رہی ہے وہیں کانگریس کے مقامی رکن اسمبلی الپیش ٹھاکر کی جانب سے گجراتی عوام کو اکسانے اور الجھانے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے ۔ اس کے جواب میں کانگریس پارٹی نے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کا ایک ویڈیو جاری کردیا ہے جس میں وہ بھی مقامی گجراتی عوام کو غیر مقامی باشندوں کے خلاف اشتعال دلاتے اور ورغلاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان حرکتوں کے بعد یہاں تشدد پھوٹ پڑا تھا ۔ غیر مقامی افراد کی آمداور ان کے قیام کا مسئلہ صرف مہاراشٹرا یا صرف گجرات تک محدود نہیں ہے ۔ ملک کی شائد ہی کوئی ریاست ایسی ہوگی جس میں شمالی ہند کے باشندے تلاش معاش اور حصول روزگار کے سلسلہ میں آکر نہیں بس گئے ہوں۔ ان کی آمد سے جہاں کچھ مسائل بھی پیدا ہوئے ہونگے لیکن ان کی وجہ سے صنعتوں میں کام کاج کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ صنعتی پیداوار بڑھی ہے ۔ ان کی وجہ سے مقامی معاشی سرگرمیاں مستحکم ہوئی ہیں اور علاقائی معیشت کو استحکام بھی حاصل ہوا ہے ۔ انہیں کسی معمولی وجہ سے نشانہ بناتے ہوئے نقل مقامی کرنے پر مجبورکردینا اور روزگار اور گھر بار چھوڑ کر دوبارہ واپس جانے پر مجبور کردینا مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ۔ ان افراد کو نفرت کا نشانہ بنانے کی بجائے مسئلہ کی قابل قبول انداز میں یکسوئی کیلئے کوشش کی جانی چاہئے ۔
گجرا ت میں جس طرح سے دو اصل سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے اس مسئلہ پر سیاست کی جا رہی ہے وہ افسوسناک ہے ۔ علاقائی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے امن کو خطرہ میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ جو سیاسی جماعتیں ایک ریاست میں ایک نعرہ دیتی ہیں انہیں دوسری ریاست میں دوسرا نعرہ لگانے سے گریز کرنا چاہئے ۔ سارے ملک کے ماحول اور امن و امان کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے اور اس سارے معاملہ سے حکومتوں کو اپنا دامن بچانے کی بجائے اس کو سمجھنے اور اس کا حل دریافت کرنے پر توجہ دینا چاہئے ۔ مسئلہ سے صرف نظر کیا گیا تو صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑسکتی ہے ۔