ک2019 کا موضوع ’’ رام مندر ‘‘

میں سوا سو کروڑ عوام کی اک آن بان ہوں
ہندو نہ مسلمان میں ہندوستان ہوں
ک2019 کا موضوع ’’ رام مندر ‘‘
رام مندر ہی بی جے پی کی بقا کا واحد سہارا ہے لیکن اب ملک کا ہر سمجھدار شہری بی جے پی کی اس انتخابی ڈرامہ بازی سے واقف ہوچکے ہیں ۔ 1980 کے بعد سے اپنی سیاسی قوت کو بڑھانے کی فراق میں سرگرم بی جے پی نے عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہونچائی ہے ۔ ترقی اور اچھے دن کے وعدے میں ناکام بی جے پی نے پھر سے رام مندر کا راگ الاپنے کے لیے اپنے مہروں کو میدان میں چھوڑ دیا ہے ۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے مندر کے تعلق سے جتنی آوازیں اور شور ہونے لگا ہے یہ لوک سبھا انتخابات کی تیاری کا حصہ معلوم ہوتے ہیں ۔ عوام کے ووٹوں کی مفت خوری کرنے کا نتیجہ ایک دن فاقہ کشی کی نوبت پر پہونچا دے گا اور بی جے پی جس دن سیاسی فاقہ کشی کے دہانے پر پہونچے گی ، اس دن سے ملک کے عوام کے مستقبل میں روشن کرنیں نکل آئیں گی ۔ بی جے پی والوں نے اب نریندر مودی کو رام کا اوتار بنادیا ہے ۔ یہ لوگ کسی کو بھی کسی بھی جگہ پر پہونچانے کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ہیں ۔ جس کیس کا معاملہ عدلیہ میں زیر دوراں ہے اس موضوع پر بحث یا مطالبات اور بیانات کا سلسلہ شروع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ لوگ خود کو عدلیہ سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں ۔ ایودھیا میں رام مندر کے متنازعہ مقام کو جوں کا توں موقف دینے والی عدلیہ کے سامنے دیگر مسئلہ پر کیس زیر دوراں ہے تو آخر ان لوگوں کو عقیدہ کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کی اجازت کس نے دی ہے ۔ مرکزی وزیر اوما بھارتی اور گری راج سنگھ نے رام مندر کا راگ چھیڑ دیا ہے ۔ اوما بھارتی نے رام مندر کی تعمیر کو اپنی زندگی کا خواب قرار دیا اور گری راج نے دھمکی دی کہ رام مندر کی تعمیر سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ۔ اس عصری و ترقی یافتہ دنیا میں ٹکنالوجی کی دوڑ میں کئی ممالک آگے نکل گئے لیکن یہ قائدین ہنوز عوام کو بے وقوف سمجھ کر انہیں تاریکی کی کھائی میں ڈھکیل رہے ہیں ۔ یہ لوگ ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں صرف خواب بیچ کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کے عادی لوگ رہتے ہیں ۔ ایک ترقی پذیر ملک کی حکمرانی کرنے کی ذمہ داری دے کر عوام نے یہ توقع کی تھی کہ ان کے ووٹوں کو ضایع نہیں کیا جائے گا ۔ مگر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ وہیں پر کھڑے ہیں ، جہاں سے وہ نکلے تھے ۔ مرکز میں اقتدار حاصل کئے چار ساڑھے چار سال ہوچکے ہیں ۔ ان چار سال میں بی جے پی کے قائدین نے رام مندر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن اچانک اس سال دسہرہ کے بعد سے بی جے پی کے مختلف قائدین کی زبان پر رام مندر کا نام زیادہ آنے لگا ہے ۔ آر ایس ایس نے جب ایودھیا میں رام مندر کے لیے اپنی تشویش ظاہر کی اور قانون لانے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کی ساری ٹولی اس موضوع پر بولنے کے لیے اتر چکی ہے ۔ ہندوتوا ایجنڈہ کے برانڈ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنی ریاست میں رام مندر کے بارے میں سب سے زیادہ بولنا ہے وہ جتنا اس موضوع پر تھرکتے ہوئے دکھائی دیں گے بی جے پی کے حق میں ووٹوں کی بارش ہونے لگے گی کیوں کہ پارٹی کے کچھ نافہم لوگوں کا خیال ہے کہ اگر لوک سبھا انتخابات میں کامیاب ہونا ہے تو رام کا سہارا لینا ضروری ہے کیوں کہ بی جے پی کے پاس عوام سے ووٹ لینے کے لیے کوئی ترقیات ، خوشحالی اور روزگار فراہم کرنے جیسے وعدوں کا ثبوت نہیں ہے ۔ لہذا عوام کو اپنی حکومت کی ناکامیوں سے بے خبر رکھنے کے لیے مندر کو سامنے لایا جائے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے دسہرہ کے جلسہ میں بی جے پی پر زور دیا کہ وہ رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے قانون سازی کرے تو سب سے پہلا سوال یہی اٹھا کہ اب بی جے پی کو 2019 کے لیے آر ایس ایس کے ایجنڈہ رام مندر کو ہی آگے بڑھانے کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ’’وکاس ‘‘ اب اس پارٹی کا موضوع نہیں ہے ۔ متنازعہ اور حساس مسئلہ رام مندر ہی ہے لہذا عوام کو مذہب کے نام پر آسانی سے گمراہ کیا جاسکتا ہے ۔ یعنی 2019 کی عصری ٹکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھنے والی قوم کو یہ بی جے پی ، آر ایس ایس نے مل کر 90 کے دہے میں ہی گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی ہے تو عوام اس زوال کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور اس کا جواب وہ خود ڈھونڈلیں گے ۔۔