کیوں ہندوستان کو عمران خان کی زیر قیادت نئے پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے

دہشت گردی کے اس مرکز کے ساتھ معاملے داری کرنے کی حکمت عملی میں ایک کامیا ب حکومت ہند پوری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ پاکستان کے متعلق ہندوستان کی پالیسی مانو گھڑی کے کانٹنے کی طرح ہے جو کبھی ایک شدت پسند سے دوسری شدت پسند تک پہنچ کر رک جاتی ہے‘ تاکہ ایک فیصلے کن لڑائی سے بچنے کے فراغ میں۔پاکستان کی فوج کو مکمل ایک سال کا وقت لگا جب انہوں نے نہایت نرم انداز میں عدلیہ کااستعمال کرتے ہوئے ایک منتخب وزیراعظم کواس کے عہدے سے ہٹایا۔

ملٹری کے تیارکردہ انتخابی نقشہ کے جو نتائج سامنے ائے ہیں وہ عمران خان کی حمایت میں گئے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب نواز شریف کوان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی پہلی سالگرہ کا وقت ہے۔ جس طرح کے حالات کا سامنا نواز شریف نے کہاکہ ویسا پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم کے ساتھ ہوسکتا ہے جس کامقصد فوج پر عام شہریوں کا کنٹرول ہوجائے ۔یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی وزیراعظم کو پانچ سال تک کی معیاد پوری کرنے کا موقع ملتا ہے۔

جب ایک وزیراعظم گہری ریاست سے گریز کرتا ہے تو ‘ مذکورہ عدلیہ ‘ اپوزیشن اور بیوروکریسی کا استعمال اس کی شبہہ خراب کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور اسکو ہٹادیاجاتا ہے۔ ہر وزیراعظم کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت ہٹادیا گیا ہے۔سال1979میں پاکستان کے سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دیدی تھی ‘ جبکہ دوسرے کو 2017میں بیدخل کردیاتھااور ہر فوجی بغاوت کا جائز قراردیا۔

کیس کی سنوائی کے بغیر شریف کوبیدخل کردیا گیا ‘ سزا کے متعلق ایک طرفہ فیصلہ سنایاگیا‘ حقیقی انصاف سے آنکھیں موند کر مذکورہ سپریم کورٹ نے ملٹری انٹلیجنس کے اشتراک سے کئے گئے تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کی بنیاد پر انہیں قصور وار قراردیا اور بیدخلی کے بعد مقدمہ چلانے کے احکامات جاری کئے۔

شریف کی پچھلے ہفتہ برطرفی تھی جو وزیراعظم نریندر مودی کے اچانک لاہو ردورے کی یاد دلاتی ہے جو جیل میں قید شریف اور ہندوستان کے مہنگی ثابت ہوئے‘ کیونکہ اسی کے ساتھ پاکستانی فوج نے اس کاردعمل پٹھان کورٹ سے اوری اور ناگروٹا تک کی ہندوستان کی سکیورٹی بنیاد وں پرسلسلہ وار دہشت گردحملوں سے دیا ہے۔

مودی کے دورے نے شریف کی سیاسی اثر کومہر بند کردیا۔ بعد میں انہیں ہٹانے کے لئے پناماں پیپرس لیک کی فراہمی کوبنیاد بنانا پڑا۔ہندوستان کے لئے یہ کوئی احتیاط برتنے کے لئے کہانی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ سبق ہے جس کا دھماکہ خیز اثر ہوسکتا ہے۔تازہ انتخابات نے پاکستان میں کچھ معمولی تبدیلی لائی ہے‘ ایک ملک کو اب بھی خود میں امن کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔

پاکستان کی ملٹری اب بھی برقرار ہے مگر پردے کے پیچھے سے اپنے مہرے کے ذریعہ کھیل کھیلنے کی تیاری رکرہی ہے ‘ اور ان کا نیا مہرے عمران ہے۔

فوج نے نہ صرف انتخابی ماحول کو عمران کے لئے ساز گار بنایا ہے بلکہ انہیں اقتدار میں لانے کے لئے سب کچھ کیاہے۔مذکورہ ای یو ٹیم نے مانا ہے کہ رائے دہی’’ بہتر انداز میں او رشفافیت ‘‘ کے ساتھ انجام دی گئی ہے مگرکہاجارہا ہے کہ ’’ اظہار خیال کی آزادی اور غیر مسابقتی مہم پر تحدیدات عائد کردئے گئے تھے‘‘۔

تاہم سابق انڈین چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے انتخابات کو کلین چٹ دی ہے۔درحقیقت ملٹری نے اپنے دوہری جیت درج کرائی ہے۔ اگلا وزیراعظم ملٹری کی حمایت والے جہادیوں کا حمایتی ہوگا۔ اپنی خفیہ جانکاری کی کمی کے سبب عمران طویل مدت تک بے وقوف بنے رہے‘انہیں ایک مذہبی حوصلہ افزائی میں ملوث ہے ‘ جنھوں نے توہین کا کارڈ کھیلا اور جن کی پارٹی میں بڑے اور سخت گیر شدت پسند جیسے اظہار شاہ ‘ ایک سابق ائی اے ایس افیسر ا

ور حافظ سعید کانہایتی قریبی ‘ ملا عمر اور ڈانیل پرل کا قتل کرنے والا شامل ہوئے۔ شاہ اب ایوان پارلیمنٹ میں جس نے اسامہ بن لادن کو چھپانے میں بھی مدد کی تھی