کینسر کے مریضوں کیلئے کیوبا اُمید کی کرن

امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب وہ کینسر کی ایک ایسی منفرد دوا کا اپنے یہاں ٹیسٹ کر رہا ہے جسے 50 سال سے زیادہ وقت سے پابندی جھیلنے والے کیوبا نے تیار کیا ہے اور اس کے کئی شہری سارے پابندیوں کو نظر انداز کرکے کمیونسٹ ملک میں علاج بھی کروا رہے ہیں۔کیوبا کے سائنسدانوں نے پھیپھڑوں کے کینسر کے لئے ’کمواکس‘ نام کی دوا ایجاد کی ہے جس سے مریضوں کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ کوالٹی آف لائف کو بہتر بنانے کے ساتھ کئی مریض ایسے ہیں جو کئی سال تک زندہ ہیں جنہیں ڈاکٹروں نے صرف کچھ دنوں کا مہمان بتایا تھا۔ یہ دوا خون میں موجود ایک ایسے پروٹین سے لڑنے کے لئے مزاحمت کو مضبوط کرتی ہے جو پھیپھڑوں کے کینسر کے لئے ذمہ دار ہے ۔ ایک بار علاج شروع ہونے کے بعد دوا کو ہرمہینہ انجکشن کے ذریعے دیا جاتا ہے ۔ اس دوا کا تجربہ نیویارک کے بفالو واقع روسویل پارک کینسر انسٹی ٹیوٹ میں کیا جا رہا ہے ۔ انسٹی ٹیوٹ کے مدافعتی ڈیپارٹمنٹ کے صدر ڈاکیلوئن لی نے کہا کہ وہ کیوبا کے سائنسدانوں کی کارکردگی اور کامیابی کے قائل ہیں۔ کیوبا کے ساتھ امریکہ کا کاروبار سمیت تمام طرح کے تعاون پر پابندی عائد ہے ۔ لہذا دوا کے ٹیسٹ کے لئے امریکہ کو خصوصی اجازت کی ضرورت پڑی۔ انہوں نے کہا کہ اندازہ سے کہیں زیادہ سستی دوا کینسر کے ابتدائی مرحلے میں دینے پر یہ انتہائی کارگر ثابت ہو سکتی ہے ۔ امریکہ میں ویسے بھی کینسر کا علاج مہنگا ہوتا جا رہا ہے ۔ اس دوا کا استعمال پھیپھڑوں کے کینسر سے بچاؤ کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا چین ا سموکرس کو اس کا ٹیکہ لگایا جا سکتا ہے ۔کیوبا کی ’کائنڈ ناؤ ‘دوا ساز کمپنی ’کمواکس‘ بنا رہی ہے جہاں 22 ہزار سے زیادہ سائنسی، انجینئر اور ٹیکنالوجی ماہر کام کر رہے ہیں۔ امریکہ کو چھوڑ کر دنیا کے بہت سے ممالک میں اس دوا کو فروخت کیا جا رہا ہے اور’کمواکس‘ سے امریکی مریضوں میں امید کی کرن پیدا ہو رہی ہے ۔کیوبا میں لوگوں کو علاج کے لئے پیسے نہیں خرچ کرنے پڑتے ہیں انہیں حکومت سستی شرح پر یہ سرویس مہیا کراتی ہے ۔ لہذا کیوبا کے لوگوں کو’کمواکس‘کی قیمت نہیں معلوم ہے اور اس ملک کے شہریوں کو اس دوا کو لے کر اپنی حکومت پر ناز ہے ۔امریکہ کی 65 سالہ لسریسیا ڈے جیجس ربلو گزشتہ سال ستمبر میں کیوبا کے دارالحکومت ہوانا آئی تھیں۔ ان کے ایک پاؤں میں درد تھا۔ جانچ میں پتہ چلا انہیں چوتھے مرحلے کا پھیپھڑوں کا کینسر ہے ۔ ڈاکٹروں نے انہیں صرف دو یا تین ماہ کا مہمان بتایاتھا۔ انہوں نے کہا، ’’میں کموتھیراپی اور ریڈیوتھیراپی کے انتہائی تکلیف دہ علاج سے گزری ہوں۔ اب میں کیوبا میں علاج کروا رہی ہوں اور بہتر محسوس کر رہی ہوں۔ میں یہا ں وہیل چیئر پر آئی تھی اور اب پانچویں منزل سے اوپر سے نیچے آتی ہوں۔ لیکن میں نے اپنے ایسے کئی ماہرین کے لئے دکھی ہوں جن کی کینسر سے موت ہوگئی کیونکہ انہیں اس دوا کا فائدہ نہیں مل پایا تھا‘‘۔اس دواکے ٹیسٹ کے ابتدائی 1990 کے دور سے منسلک ڈائیلا نینجر نے کہا کہ انہوں نے اس دوا سے سینکڑوں مریضوں کا علاج کیا ہے اور کئی مریض کینسر ہونے کے 10 سال کے بعد بھی زندہ ہیں اور زندگی کا مکمل لطف اٹھا رہے ہیں۔