کیرالا بھون اور گوشت

دارالحکومت دہلی میں جرائم، عصمت ریزی اور دیگر غیر سماجی واقعات کے انسداد میں ناکام پولیس نے گوشت کے مسئلہ پر جس پھرتی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر تنقیدیں ہورہی ہیں۔ کیرالا بھون میں گوشت کے استعمال اور پکوان کے بعد اس کو سربراہ کرنے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کیرالا بھون پر دھاوا کیا۔ دہلی پولیس کی اس کارروائی کو مرکز کی مودی حکومت کی پالیسی کا مظہر قرار دیا جارہا ہے۔ دہلی کی پولیس پر حالیہ برسوں کے دوران جو داغ لگے ہیں اس میں مزید اضافہ یہ ہوا ہے کہ پولیس اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہے بلکہ سیاسی آقائوں کی فرمانبرداری اس کا شیوہ بن گیا ہے۔ دارالحکومت دہلی میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ آئے دن عصمت ریزی کے واقعات ہوتے ہیں اور پولیس اس طرح کے جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ دنیا بھر میں جہاں سائنس و ٹکنالوجی کی باتیں ہورہی ہیں وہیں مرکز میں مودی حکومت آنے کے بعد سے گوشت کے مسئلہ کے اردگرد ہی حکومت کی مشنری سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ آر ایس ایس اور اس کے وزیراعظم کے پاس ایسے کوئی منصوبے نہیں ہیں کہ جن پر وہ اظہار خیال کرسکیں۔ اہم مسائل پر بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہے۔

اس لئے عوام کی توجہ اپنی خرابیوں اور خامیوں سے ہٹانے کے لئے گوشت کھانے اور فروخت کرنے کے مسئلہ کو اہمیت دے کر 1.25 کروڑ عوام کو مسلسل بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستانی شہریوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی زندگی گزاریں، اپنی پسند کا کھانا کائیں لیکن زعفرانی ٹولے کو یہ گوارا نہیں ہے کہ اس کے اقتدار میں اس کے نظریہ کے خلاف کام ہو۔ گائے کے گوشت کی فروخت اور کھانے کو مسئلہ بنانے والوں نے آر ایس ایس کے عین ارادوں کے مطابق کام کرنا شروع کیا ہے۔ کیرالا بھون میں مہمانوں کو کھانا سربراہ کیا جاتا ہے۔ اس میں گائے کا گوشت کی سربراہی کی افواہ پھیلاکر پولیس کو حرکت میں لایا گیا۔ حکومت کیرالا نے پولیس دھاوے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے وضاحت کی کہ کیرالا بھون میں گائے کا گوشت نہیں بلکہ بھینس کا گوشت سربراہ کیا گیا۔ بعدازاں اس نے لفظ گوشت کو ہی اپنے نرخنامے سے ہٹادیا لیکن دوسرے دن اسے مینو میں دوبارہ شامل کردیا گیا۔ دہلی میں بیف پر پابندی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا بھی پولیس کے ذمہ ہے۔ دہلی میں یہ بات عام ہے کہ پولیس کے سامنے شکایت کرنا بھی ایک جرم ہے یا عوامی شکایت پر حرکت میں آنے کو بھی پولیس غیر قانونی تصور کرتی ہے مگر اپنے سیاسی آقائوں کے حکم کی تعمیل کرنے میں چوکسی دکھاتی ہے۔ کیرالا بھون واقعہ کو سیاسی تنازعہ کی نذر کرنے میں بھی ایک طرح کی چال ہے۔ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں۔

چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے دہلی پولیس کی اس صورتحال کو زیادتی قرار دیا کیوں کہ کیرالا بھون کوئی خانگی ہوٹل نہیں ہے اور پھر دہلی پولیس کو کیرالا بھون میں داخل ہونے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ تو صرف بی جے پی کی سینا کی طرح کام کررہی ہے۔ اس دھاوے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی نے دہلی پولیس پر اپنی تنقیدوں میں کوئی کوتاہی نہیں کی تاہم جہاں تک گوشت کا سوال ہے ان دنوں یہ مسئلہ مودی حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بنا دیا گیا ہے۔ میڈیا سے لے کر سنگھ پریوار کے ٹولے نے گوشت کو ہی ہندوستان کی اہم پالیسی اور مودی حکومت کی کارکردگی کی اولین شناخت بنایا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے دفتر کو فضول کاموں میں مصروف رکھ کر اس ادارہ کی اہمیت اور افادیت کو گھٹایا گیا۔ وزیراعظم کے دفتر کی اس طرح کی کارکردگی کو ماضی میں ہرگز نہیں دیکھا گیا۔ مرکزی حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ریاستی حکومتوں سے تصادم کی راہ اختیار کرنے کے بجائے پالیسیوں پر عمل آوری پر دھیان دے۔ ہندوستانی سماج کے خدوخال کو بگاڑنے کی کوشش کے نتائج بھی بھیانک ہوسکتے ہیں۔ دنیا نے کافی ترقی کرلی ہے مگر ہندوستان کے اندر فرقہ پرستوں نے سماج کے چہرہ کو جس انداز سے مسخ کرنا شروع کیا ہے یہ فکرونظر کے حامل ذہنوں کیلئے غور طلب ہے۔