کیا پھرآسکتی ہے رام مندر کی تحریک میں شدت ؟ بقلم :۔ شکیل شمسی 

ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کئے جانے کی وجہ سے اعلی ذات کے ہندؤوں میں جو بے چینی پھیلی ہے اس سے ایک نیا نعرہ ابھرا ہے ’’ اب کی بار NOTAکا بٹن ‘‘۔یعنی سورن سماج نہ تو بی جی پی کو ووٹ دے گی نہ کانگریس کو ۔ اسی کے ساتھ سورن سماج نے بھارت بند کی اپیل کی ہے جس کا اثر مدھیہ پردیش میں نظر آیا ۔اور وہاں کی پولیس کو بعض شہرو ں میں سیکشن ۱۴۴؍نافذ کرناپڑا ۔

کیونکہ اعلیٰ ذات کی طرف سے حکومت پر دباؤ ڈال کر ایس سی ایس ٹی ایکٹ کو بدلوانے کی اس کوشش کے خلاف دلت سماج بھی سڑکوں پر اتر سکتی ہے۔او ر دونوں طبقوں کے درمیان سیدھے ٹکراؤ کی نوبت آسکتی ہے۔ ظاہر ہے مودی سرکار کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔

ایک طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش دوسرے کو ناراض کرنے کا باعث ہوگی ۔ایسے حالات میں ایک ہی صورت باقی رہ گئی کہ ہندو سماج کو بکھرنے سے بچانے کیلئے آرایس ایس او را سکی حلیف تنظیمیں وہی پرانا حربہ آزمائیں جو وہ ۸۰؍ کے دہائی سے آزماتی آئی ہے ۔ یعنی رام مندر کی تعمیر کا سلسلہ زور زبر دستی سے شروع کردیں ۔ واضح رہے کہ رام مندر کی تحریک اس وقت شروع ہوئی تھی جب تمل ناڈو کے میناکشی پورم علاقہ میں ۱۹؍ فروری 1981ء کو کئی ہزاروں سال سے ہورہی مذہبی تفریق کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرلیا تھا۔

حالانکہ دلتوں نے اجتماعی طور پر پہلی بار مذہب تبدیل نہیں کیاتھا۔ مذہب تبدیل کرنے کی تحریک بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے شروع کی تھی ۔ لیکن انہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر لوگوں کو بودھ مذہب اختیار کرنے کو کہا تھا ۔

اس پر ہندوؤں نے اعتراض اس لئے نہیں کیا کہ ان کے خیال میں بودھ بھی ہندو ہی تھے۔ ہندو توا دیوں کو لگا کہ اگر دلتوں میں یہ روش پنپبے لگی تو بہت مشکل ہوجائے گی ۔ اس لئے ہندوؤں کو متحد کرنے کیلئے وشواہندو پریشد نے رام مندر کی تحریک شروع کردی او رمطالبہ کیاکہ ایودھیا کی بابری مسجد کو گرا کر وہاں ایک عالیشان رام مندر بنایاجائے ۔

وشواہندو پریشد نے سارے ملک میں ہندو مسلم کشیدگی پیدا کر کے دلتوں کو رام مندر کی تحریک سے جوڑنے میں کامیابی حاصل کی ۔