کم معاوضہ کے سبب کسانوں کی خودکشی ایک حقیقت : سپریم کورٹ

مرکزی حکومتیں ہمیشہ اچھے کام کا کرتی رہی ہیں لیکن چند افراد خودکشیاں بھی کررہے ہیں ، یہ ہم سب جانتے ہیں: بینچ کا ریمارک
نئی دہلی۔ 30 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج اپنے اس تاثر کا اظہار کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آفات سے متاثرہ کسانوں کو کم معاوضہ کی ادائیگی چند کسانوں کی خودکشی کا سبب بن رہی ہے۔ جسٹس مدن بی لوکر کے زیرقیادت ایک بینچ نے کہا کہ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کی اصلاح کی ضرورت ہے، یہ کسی ایک یا دوسری حکومت کی بات نہیں ہے۔ مرکزی حکومت ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ وہ (کسانوں کیلئے) اچھے کام کررہی ہے، لیکن چند لوگ خودکشی بھی کررہے ہیں اور ہم تمام یہ جانتے ہیں‘‘۔ اس بینچ نے جس میں جسٹس این بی رمنا بھی شامل ہیں، مفادِ عامہ کی ایک درخواست پر سماعت کے دوران قحط سالی سے متاثرہ کسانوں کو پہونچائی جانے والی امداد کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس تاثر کا اظہار کیا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ آفاتِ سماوی سے متاثرہ علاقوں سے متعلق رہنمایانہ خطوط پر فی الفور عمل آوری کی جائے۔ ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل پنکی آنند نے مرکز کی طرف سے رجوع ہوتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ فصلوں کو ہونے والے نقصانات کے معاوضہ کا تعین کرنے میں کسی بھی قسم کی جانبداری یا ظلم نہیں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس میں جبر یا جانبداری کی کوئی بات نہیں ہے۔ قحط سالی سے متاثرہ کسانوں میں معاوضہ کی تقسیم کیلئے مرکز پہلے ہی رہنمایانہ خطوط مدون کرچکا ہے‘‘۔ سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے درخواست گذار غیرسرکاری تنظیم ’’سوراج ابھیان‘‘ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پٹواریوں (اراضیات کے ریکارڈ کی دیکھ بھال کرنے والے عہدیداروں) کی طرف سے نقصانات کے تخمینہ یا معاوضہ کے تعین کے ضمن میں ظلم اور جانبداری کی جاتی ہے۔ سماجی جہد کار اور سیاسی رہنما یوگیندر یادو نے جو اس غیرسرکاری تنظیم کے ایک اہم ذمہ دار بھی ہیں، عدالت کو مطلع کیا کہ ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں دو بھائی ایک دوسرے کے بازو اپنی مساویانہ رقبہ پر مشتمل اپنی زمینات پر کاشت کررہے ہیں، جنہیں آفات ِ سماوی کے سبب مساویانہ خسارہ ہوا لیکن انہیں غیرمساویانہ انداز میں معاوضہ ادا کئے گئے۔ انہوں نے مثال کے طور پر دعویٰ کیا کہ ایک بھائی کو 16,000 روپئے اور دوسرے بھائی کو محض 160 روپئے بطور معاوضہ حاصل ہوئے، حالانکہ دونوں کی زمین کا رقبہ مساوی تھا اور دونوں کو یکساں طور پر نقصان پہونچا تھا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران این ڈی اے حکومت کی فلیگ شپ اسکیم ’پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا‘ بھی زیربحث رہی، جب بینچ نے درخواست گذار سے استفسار کیا کہ آیا یہ (اسکیم) ایسی صورت میں قابل بھروسہ ہوسکتی ہے اور آیا اس سے قحط سالی سے متاثرہ کسانوں کو کوئی فائدہ پہونچ سکتا ہے۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ چھتیس گڑھ میں ایسی ہی ایک اسکیم شروع کی گئی تھی لیکن کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسکیم بہت بڑا اسکام ہوسکتی ہے کیونکہ کسانوں کو اس کے ذریعہ خاطر خواہ فوائد نہیں پہونچائے جاسکے۔