کشمیری پنڈتوں سے زیادہ کشمیر میں مسلمان ظالم وزیادتیوں کاشکار۔ ایک ٹوئٹ نے برپا کیاہنگامہ

کشمیری پنڈتوں کا لے کر ہر وقت اس بات کا واویلا مچایاجاتا ہے کہ ریاست جموں او رکشمیر میں اگر سب سے زیادہ کوئی مظلوم قوم ہے تو وہ کشمیری پنڈت ہیں۔ یہ بات حقیقت بھی ہے کہ کشمیر ی پنڈت پچھلے بیس سالوں سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ‘ وہ انصاف کے لئے آج ترس رہے ہیں مگر جس انداز میں کشمیری پنڈتوں کو پیش کرنے کے زعفرانی طاقتیں کام کرتی ہیں وہ جموں او رکشمیر کی زمینی حقیقت سے کافی دور ہیں۔

مختلف ویب سائیڈیس اور نیوز چیانلوں پر کشمیر ی پنڈتوں کے مسلئے کو اس طر ح پیش کیاجاتا ہے کہ ان کشمیر میں کوئی پرسان حال نہیں ہے ‘ جب کبھی بے قصور کشمیری نوجوانوں کی انکاونٹر میں موت کا واقعہ پیش آنے پر سماجی تنظیمو ں اور انسانی حقوق کی لڑائی لڑنے والے اداروں کی جانب سے کوئی احتجاج کیاجاتا ہے تو بھگوا تنظیمیں کو اچانک کشمیری پنڈتوں کی یاد آجاتی ہے ۔

فسطائی طاقتیں کشمیری پنڈتوں کے موضوع کو فرقہ وارنہ مسلئے بنانے میں کوئی کسر چھوڑ نا نہیں چاہتے ۔ چند دن قبل ایک ٹی وی شوکے دوران مشہور فلم اداکاری اور بی جے پی کے کٹر حامی انوپم کھیر نے کشمیری پنڈتوں پر ایک خصوصی پروگرام بھی کیاتھا اور اس حسا س موضوع پر نفرت پھیلانے کی مذموم کوشش بھی کی ۔مگر 29مارچ کے روز سوشیل نٹ ورکنگ سائیڈ پر پروفیسر اشوک سوین کے ایک ٹوئٹ نے ہنگامہ کھڑا کردیا ۔

کیونکہ پروفیسر اشوک نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ’’ سال1989سے اب تک کشمیر میں 219پنڈت مارے گئے جبکہ 40,000مسلمان بھی مارے گئے‘‘۔ پروفیسر پرشانت کے اس ٹوئٹ نے مائیکر بلاگنگ ویب سائیڈ ٹوئٹر پر طوفان مچ گیا۔دراصل پروفیسر اشوک نے ایک اور پروفیسر کے مسٹر اشوک کے ٹوئٹ کے جواب میں یہ بات کہی تھی۔

https://twitter.com/PrashantPfor/status/979267559760547841

دراصل پروفیسر پرشانت نے پروفیسر اشوک سے مخاطب ہوکر ٹوئٹ کیاتھا کہ’’ مسٹر اشوک سوین ان ہزاروں پنڈتو ں کا کیاجو دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔ ان کے لئے کوئی آنسو نہیں؟کیاوہ انسان نہیں تھے؟کیاہم اس ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان کی چوری ہوئی چیز انہیں واپس نہیں دلاسکتے؟ اپنے ہی ملک میں وہ پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔تمھیں شرم آنی چاہئے‘‘۔

https://twitter.com/ruhailauthor/status/979273834829434880

مذکورہ ٹوئٹ کے جواب میں پروفیسر سوین نے سرکاری اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کشمیر میں پنڈتوں سے زیادہ مسلمان مارے جارہے ہیں۔ مسٹر سوین کے ردعمل کی بہت سارے لوگوں نے حمایت بھی اور حسب روایت کچھ نے مخالفت بھی ۔ روحیل خان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے پروفیسر اشوک سوئن کے ٹوئٹ پر اپنا جواب لکھتے ہوئے کہاکہ’’ پروفیسر پرشانت اور پروفیسر اشوک سوئن دونوں غلط ہیں۔

آج کی تاریخ تک ایک لاکھ کے قریب مسلمان مارے گئے ہیں۔ تیس ہزار لاپتہ ہیں۔ بیس ہزار کے قریب بیماریوں میں مبتلا ء ہیں جبکہ ہزاروں اندھے اور بہرے ہوگئے ہیں ‘ سینکڑوں عورتوں کی عصمتیں تارتار کی جاچکی ہیں اس کے برخلاف کشمیری پنڈتوں کی بات کی جائے تو 297مارے گئے ہیں‘‘۔بہت سارے جواب اور سوال کا سلسلہ اس کے بعد شروع ہوگیا۔

ٹوئٹر پر اس لفظی جنگ کو دیکھنے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بھگوا بھگت کسی بھی صورت میں حقیقت کاسامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہاں پر کچھ ٹوئٹ آپ کے مشاہدے کے لئے بھی پیش کئے جارہے ہیں۔

https://twitter.com/dr_rita39/status/979442933400330240

https://twitter.com/YogiAjayBisht/status/979373315776237568

https://twitter.com/PrashantPfor/status/979271725681606656