کس طرح بی جے پی اور کانگریس مسلمانوں پر سیاست کررہے ہیں

کانگریس مسلمانوں کی ہمدرد دیکھائی دیتی ہے اور بی جے پی ایک مخالف مسلم جماعت
الیکشن کے اس سال میں وزیراعظم نریند ر مودی ‘ بی جے پی صدر امیت شاہ اور دیگر کئی لیڈرس کانگریس پر مسلمانوں کے حوالے سے حملے کرنے کاکوئی موقع نہیں چھوڑیں گے۔ کانگریس کے پاس خود کو بچانے کے لئے کوئی دوسرا موقع نہیں ہے‘ سوائے جوابی اور یہ فیصلہ کیا ملک کے متعلق وہ کیاچاہتے ہیں۔

یہاں پر کئی ایسے غیربی جے پی اور غیرکانگریسی شراکت دار بھی ہے جو اس موضوع پر بات کررہے ہیں۔ یہ غیر واجبی ہوگا کہ اس تمام مسلئے کو موافق مسلمان او رمخالف مسلمان قراردیا جائے۔ کانگریس کو موافق مسلمان اور بی جے پی کو ایک مخالف مسلمان کے طور پر دیکھاجارہا ہے۔

حیران کردینے والی بات تو یہ ہے کہ کانگریس بھی بھی موافق مسلمانوں دیکھائی دینا چاہی ‘ اور اسکی کٹر مخالف بی جے پی نے اس کو اس کونے میں دھکیلنے کاکام کیاہے۔

اور وہیں بی جے پی مخالف مسلمانوں پارٹی بننا چاہتی ہے‘وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کی طرح مسلمانوں الوداع کرنے کی ان کی چاہ ہے۔بی جے پی پہلے ہی مسلم خواتین کے حقوق کا دفاع کرنے والی کے طور پر خود کو پیش کرچکی ہے‘ بالخصوص تین طلاق کے معاملہ پر ۔

مسٹر مودی ’’مسلمانوں کی پارٹی‘‘ قراردیتے ہوئے کانگریس پر حملہ کررہے ہیں‘ اور خودساختہ طور پر یہ اعلان کررہی ہے کہ بی جے پی ’’ موافق مسلم عورتوں ‘‘کی پارٹی بننا چاہارہی ہے‘ جس کی وہ ہمت نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو ڈر ہے کہ فرقہ پرست ہندؤوں کے وو ٹوں کا اس کو نقصان ہوگا جو ہندوتوا پارٹی کا مضبوط حلقہ ہے

یہہ وجہہ ہے کہ جس طرح مسٹر مودی ’’مسلمان‘‘ لفظ کا استعمال سے بچتے ہیں اسی طرح ’’ہندوتوا‘‘ کے لفظ کا استعمال کرنے سے بچ رہے ہیں۔کانگریس کی حکمت عملی میں مسلمان کمیونٹی کی قیادت کو ساتھ لینا ہے تو وہیں جس میں ایک ردعمل بھی شامل ہے۔

بی جے پی اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ کانگریس کے مضبوط قلعہ میں دراڑ ڈال سکیں اور ان خود مختار ووٹوں کو اپنا حصہ بناسکیں۔ ان کی بات چیت شیعہ اور صوفی مذہبی قائدین پر رکی ہے۔

بی جے پی ایک خود مختار پارٹی کے طور پر اکثریت کے غلبے والے معاملات پر بحث میں ہچکچاہٹ کرتے ہوئے دیکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی ہندوؤں کو لسانی ‘ ذات پات کے اختلافات کو توڑ کر متحد کرنے کی کوشش کررہے ۔

خود مختار مسلمان اور سنی اکثریت بی جے پی کی مخالفت کررہی ہے ‘ دونوں کے اپنے وجوہات ہیں۔

خود مختار مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ ردعمل والی پارٹی ہے‘ اور اسی طرح یہ مسلمان ملاؤں اور سیاسی پارٹیوں جیسے اے ائی ایم ائی ایم کے بھی خلاف ہیں۔

گجرات اور کرناٹک کے الیکشن میں کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے مندر سے مندروں تک دورہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے بی جے پی کو بدگمانیاں پھیلارہی ہے وہ غلط ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ1947کی تقسیم ہند کی تاریخ کے حوالے سے مسلم لیگ کانگریس پر ہندوؤں کی پارٹی کا لیبل لگاتی ہے اور کانگریس یہ کہتی رہی ہے کہ وہ تمام ہندوستانیوں کی پارٹی ہے