کرپشن اور پاکستان

کچھ وفائوں کا ہے اثر ان پر
بے وفائی جو بے اثر نہ ہوئی
کرپشن اور پاکستان
پاکستان میں بالآخر وزیر اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑگیا ہے ۔ پناما پیپر انکشافات میں ان کے خلاف رشوت اور کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف پارٹی کی جانب سے نواز شریف کے خلاف جدوجہد شروع کی گئی تھی جو بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہونچی اور عدالت نے وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیدیا ۔ عدالت کے اس فیصلے کی تلوار کچھ وقت سے نواز شریف کے سر پر لٹک رہی تھی ۔ اب تک انہوں نے اس تلوار سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ۔ انہوں نے ہر طریقہ سے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی اور خود پر اور اپنے افراد خاندان پر عائد الزامات کی تردید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا ۔ اس ٹیم نے اپنی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کردی تھی اور عدالت نے تمام تر دلائل اور مباحث کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ عدالت کی جانب سے مقدمات کی جو فہرست سماعت کے اعتبار سے جاری کی گئی تھی حالانکہ اس میں آج اس کیس کے فیصلے کا کوئی تذکرہ نہیں تھا تاہم ملک بھر میں پیدا ہوئی صورتحال اور عوام کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے عدالت نے آج فیصلہ سنادیا اور اس فیصلے میں نواز شریف نا اہل قرار دیدئے گئے ۔ اس طرح نواز شریف کا سیاسی کیرئیر ایک طرح سے ختم ہوگیا ہے ۔ حالانکہ اب بھی اقتدار ان کی پارٹی کو حاصل ہے اور نواز شریف اپنے جانشین کے انتخاب اور اس کی نامزدگی کا حق رکھتے ہیں لیکن عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دیا جانا ان کے سیاسی کیرئیر کے اختتام کا ہی اشارہ دیتا ہے ۔ اب وہ بھلے ہی اپنے جانشین کے ذریعہ بالواسطہ عنان اقتدار سنبھالیں لیکن راست طور رپر اور سرکاری طور پر وہ کسی معاملہ میں مداخلت کا حق کھوچکے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ اب ان سے متعلق نہیں رہ گیا ہے ۔ اقدار پر گرفت یا راست حکمرانی کا مسئلہ اپنی جگہ الگ ہے لیکن کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ان کی شبیہہ جو متاثر ہوئی ہے اس کو صاف کرنے میں شائد انہیں کافی وقت لگ جائے اور تب بھی انہیں شائد ہی کامیابی مل سکے ۔ اس فیصلے کا اثر طویل وقت میں ان کی پارٹی اور اس کے انتخابی امکانات پر بھی پڑسکتا ہے ۔
نواز شریف کے جانشین کے طور پر ان کے بھائی شہباز شریف کا نام لیا جا رہا ہے اور خواجہ آصف کا نام بھی سامنے آ رہا ہے ۔ اب نواز شریف بھلے ہی کسی کو بھی اپنا جانشین بنادیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی اعتبار سے انہیں اپنے کیرئیر کا سب سے خطرناک دھکا لگا ہے اور وہ اس داغ کو دھونے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان میں کرپشن کے الزامات اس قدر اعلی ترین سطح تک لگائے گئے ہوں ۔ تاہم اس کی مثال بہت ہی کم دستیاب ہوگی کہ کسی برسر خدمت وزیر اعظم کو کرپشن کے الزام میں عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دیا گیا ہو۔ یہ سارا معاملہ پاکستان میں کرپشن کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے ۔ ایک برسر اقتدار خاندان کے بیشتر ارکان پر کرپشن کے الزامات عائد ہوئے ہیں اور اس میں تحقیقات کا مرحلہ سپریم کورٹ تک جاپہونچا ہو اور سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو ہی نا اہل قرار دیدیا ہو۔ سیاسی اور عوامی زندگی میں یہ ایک بدترین مثال بھی کہی جاسکتی ہے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک عوامی زندگی کا سوال ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ بے بنیاد الزامات بھی مخالفین کی جانب سے عائد کئے جاتے ہیں لیکن مکمل تحقیقات کے بعد اور وہ بھی خود ملزمین کے اقتدار پر رہتے ہوئے تحقیقات کی تکمیل میں الزامات کا درست پایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ تو تھا جس کی پردہ داری کی جا رہی تھی لیکن اس پردہ داری کی کوشش میں یہ لوگ کامیاب نہیں ہوسکے اور انہیں وزارت عظمی جیسے اعلی ترین منصب سے سبکدوش ہونا پڑا ہے ۔
اب جبکہ یہ ایک مرحلہ گذر چکا ہے اور ملک کے وزیر اعظم کرپشن کے الزام میں نا اہل قرار دئے جاچکے ہے تو اب پاکستان کے عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوامی اور سیاسی سطح پر ایسے قائدین کے خلاف نبرد آزما ہوجائیں جو اپنے اقتدار کو ملک و قوم کی خدمت کی بجائے اپنے اور اپنے افراد خاندان کی لوٹ مار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ عوامی زندگی میں شفافیت لانے کیلئے باضابطہ مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلہ میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پارٹی سرگرم ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محض سیاسی جماعتوں کی کاوشوں سے اس لعنت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کیلئے عوام کو بھی کمر کسنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک عوام اس طرح کے نمائندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعہ سبق سکھانے کا تہئیہ نہیں کرلیں گے اس وقت تک اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے اور اس کی ذمہ داری قائدین کے ساتھ عوام پر بھی عائد ہوگی ۔