کرناٹک ضمنی انتخابات کے نتائج

مجھ کو نظروں کا اشارہ چاہیئے
وہ عنایت پھر دوبارہ چاہیئے
کرناٹک ضمنی انتخابات کے نتائج
کرناٹک میں ضمنی انتخابات کے نتائج سیکولر عوام کے لئے خوشخبری ہے کہ ملک میں بہت جلد فرقہ پرستوں کا خاتمہ ہونے والا ہے ۔ آنے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں عوام کی رائے کیا ہوگی اس پر کرناٹک کے ضمنی انتخابات کے نتائج کا اثرضرور دیکھا جاسکے گا۔ کرناٹک میں کانگریس ۔ جنتادل ( ایس ) اتحاد نے5 کے منجملہ چار حلقوں پر کامیابی حاصل کی اور بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار کردیا۔ سب سے زیادہ ہزیمت بیلاری میں اُٹھانی پڑی جہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان شدید مقابلہ تھا۔ دونوں پارٹیوں نے یہاں جارحیت کے ساتھ انتخابی مہم چلائی تھی۔ کانگریس کے وی ایس اُگرپا نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ بیلاری کو بی جے پی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا رہا تھا ۔ کانگریس نے کرناٹک میں اپنے بااثر قائدین کو کافی یقین کے ساتھ اختیارات دے کر ان کے حوصلے برھائے تھے اور اپنے امیدواروں کیلئے انتخابی مہم کو بھی منظم طریقہ سے چلائی۔ پارٹی کے تمام اعلیٰ قائدین نے مل کر کانگریس امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ یہی جذبہ و جوش اب ماباقی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی دیکھا جائے تو بلاشبہ کانگریس کو اقتدار حاصل کرلینے میں اب دیر نہیں لگے گی۔ کرناٹک میں بی جے پی قیادت کو یہ زعم تھا کہ وہ مرکزی قیادت کی سرپرستی میں خود کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔رائے دہندوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران بی جے پی کی مرکزی قیادت کی تمام کارکردگی کو پرکھا ہے۔ اب کرناٹک کے ان نتائج کے آئینہ میں راجستھان، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں بھی کانگریس پارٹی قائدین کو اسی جوش و جذبہ کے ساتھ انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ خاص کر تلنگانہ میں کانگریس نے اتحاد کیا ہے اور یہ فیصلہ وقت کی اہم ضروت کی تکمیل ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کے امیدواروں کے انتخاب اور اس کی کامیابی کو یقینی بنانے تک کے تمام اُمور پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ بیلاری، شموگہ اور مانڈیا کے 3 لوک سبھا حلقوں میں سے دو پر کانگریس امیدواروں نے کامیابی حاصل کی لیکن شموگہ میں کانگریس یہ نشست بی جے پی سے ہار گئی۔ اسمبلی کی دو نشستوں جمکھنڈی اور رام نگر پر کانگریس امیدواروں میں سے امیدوار چیف منسٹر کرناٹک ایچ ڈی کمارا سوامی کی اہلیہ انیتا کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بلا شبہ یہ نتائج عوام کے اندر تبدیلی کی لہر کا مظہر ہیں۔ فرقہ پرستوں کو مزید برداشت نہ کرنے اور صرف لفاظی کی سیاست کرنے والی پارٹی کو برخاست کرنے کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے تو یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی سیکولر پارٹیوں کے حق میں آئیں گے۔2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی سیکولر اتحاد کوکامیابی ملے گی۔ ہندوستانی عوام نے گزشتہ چار ساڑھے چار سال کے دوران بی جے پی حکمرانی کو پرکھا ہے۔ عوام کو شعوری طور پر فیصلہ کرنے کی توفیق ہورہی ہے تو اب ملک کا منظر نامہ بھی بدل جائے گا۔ جو پارٹیاں ملک کی تاریخ کو مسخ کرتی ہیں ملک اور ریاستوں اور شہروں میں تاریخی ناموں کو بدل کر اپنی تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہیں ان کو عوام کی وسیع النظری کے سامنے شکست کا منہ دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اس وقت سارے ملک میں بی جے پی نے جس ڈھنگ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول گرم کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے پیش نظر عوام کی بڑی تعداد محسوس کررہی ہے کہ ہندوستان کی سیکولر و جمہوری و دستوری تاریخ کو اب مزید مسخ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بی جے پی قیادت کی تنگ مزاجی اور ترش روی اور چھوٹے پن کی سیاست نے عوام کو بدظن کرنا شروع کردیا ہے۔ اب موجودہ معروضی حقائق کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا ہی اچھا ہے کہ کانگریس کو دوبارہ موقع دے کر سیکولر ہند کی بنیادوں کو مزید کمزور ہونے سے بچایا جائے۔ موجودہ حکومت اپنے وعدے توڑنے کے لئے جو جواز پیش کرنا شروع کیا ہے وہ نامعقول ہے۔ عوام اس حکومت کی نامعقول باتوں سے واقف ہوگئے ہیں۔ اس فرقہ پرستی نظام کو ہٹاکر اس پر سیکولر نظام کو جگہ بنانے میں کامیاب ہونے کے لئے کانگریس اور اتحادی پارٹیوں کو جارحیت کے ساتھ انتخابی مہم چلانی ہوگی جس کے بعد ہی آنے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی کرناٹک کے ضمنی انتخابات کا آئینہ ثابت ہوں گے۔