کرناٹک ‘ بی جے پی اور اقلیتیں

اٹھو وگر نہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
جاگو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
کرناٹک ‘ بی جے پی اور اقلیتیں
کرناٹک میں جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے بی جے پی کی جانب سے ریاست میں اقلیتی ووٹوںکو تقسیم کرنے کی کوششوں میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ پارٹی دوسری سیاسی جماعتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے حکمت عملی پر عمل پیرائی شروع کرچکی ہے ۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے ریاست کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور وہ اس میں ریاستی قائدین کو بھی زیادہ شامل کرنے تیار نہیں ہیں ۔و ہ اس بات کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ریاست میں کسی طرح بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوجائے ۔ اس کیلئے جس قدر دولت خرچ کرنی پڑے وہ کرنے تیار ہیں۔ وہ جس کسی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو اس کو تیار کرچکے ہیں۔ وہ ہر ایک پہلو کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے طور پر سیاسی بساط بچھانے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کٹر پسند عناصر کو بھی کھلی چھوٹ دیتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کرنے اور نفرت پھیلانے کی بھی پوری آزادی دیدی گئی ہے ۔ یہ لوگ اپنے بیانات اور تبصروں کے ذریعہ سے الگ ہندو ووٹوں کو مجتمع کرنے اور ایک رخ پر لانے کیلئے کوششیں شروع کرچکے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی کو نہ صرف کرناٹک میں کامیابی ملے بلکہ اس کامیابی کے ذریعہ بی جے پی سارے جنوبی ہند کو بھی اپنی زد میں لے سکے ۔ بی جے پی اب تقریبا سارے ہندوستان میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرچکی ہیں۔ شمالی ہند کی ریاستیں پہلے ہی بی جے پی کیلئے گڑھ بن چکی تھیں اور اب دوسری ریاستیں بھی بی جے پی کے اثر میں آ رہی ہیں۔ ایک جنوبی ہند کا ہی علاقہ ایسا ہے جہاں بی جے پی ابھی تک بھی اپنے قدم نہیں جماسکی ہے ۔ کچھ ریاستوں میں علاقائی جماعتیں تو کچھ ریاستوں میں کانگریس پارٹی بی جے پی کو کسی نہ کسی طرح روکے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس‘ آندھرا میں تلگودیشم پارٹی ‘ ٹاملناڈو میں انا ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے ‘ کیرالا میں کمیونسٹ جماعتیں یا پھر کانگریس نے بی جے پی کا حلقہ اثر وسیع ہونے کا موقع نہیں دیا تھا ۔ کرناٹک میں بھی کانگریس پارٹی اقتدار میں ہے اور یہاں اس نے بھی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا ہوا ہے ۔ بی جے پی کئی طرح کی کوششوں کے باوجود یہاں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔
بی جے پی سمجھتی ہے کہ کرناٹک میں حکومت قائم ہوجائے تو پھر سارے جنوبی ہند میں اپنے حلقہ اثر کو وسعت دینا اس کیلئے مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ اسی لئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہوئے ہر طرح کے توڑ جوڑ ‘ سیاسی کارندوں کے استعمال ‘ دوسری جماعتوں سے ووٹوں کی تقسیم کی حکمت عملی کو قطعیت دیتے ہوئے یہاں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔ بی جے پی خاص طور پر اقلیتی ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ ہندو ووٹوں کو متحد کرنا چاہتی ہے ۔ وہ مسلمانوں میں نفاق پیدا کرتے ہوئے اور جذباتی و اشتعال انگیز نعروں کے ذریعہ مٹھی بھر افراد کو ورغلانا چاہتی ہے اور اس کے ذریعہ ہندوووٹوں کو متحد کرنے میں زیادہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اگر اس موقع پر اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان فہم و فراست سے کام نہیں لیں گے اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کرینگے تو جنوبی ہند میں بھی بی جے پی کیلئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ بی جے پی کی اس حکمت عملی کو کامیابی سے روکنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور ان جماعتوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو بی جے پی سے در پردہ مفاہمت کرتے ہوئے مستقبل میں اس سے اتحاد کرتے ہوئے اقتدار میں شراکت داری بنانا چاہتے ہیں۔ یہ جماعتیں فی الحال تو سکیولرازم کا دعوی کر رہی ہیں لیکن ان کا ماضی ٹٹولنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان جماعتوں نے جہاں کہیں اور جب کبھی ضرورت پڑی ہے بی جے پی سے اتحاد یا مفاہمت کرنے سے کبھی بھی گریز نہیں کیا ہے ۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اقلیتوں کو ان انتخابات کیلئے اپنی حکمت عملی کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔
کرناٹک کے ذریعہ بی جے پی سارے جنوبی ہند کو لپیٹ میں لینا چاہتی ہے ۔ اگر یہاں اس کو شکست سے دوچار کردیا گیا تو اس کی پیشرفت پر روک لگائی جاسکتی ہے ۔ خاص طور پرایسے وقت میں جبکہ ہندی پٹی کی ریاستوں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حالت خراب ہونے لگی ہے ۔ وہاں کانگریس اپنے حلقہ اثر کو بحال کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ ان ریاستوں میں بھی جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ وہاں پارٹی کی حالت اچھی نہیں ہے ۔ خود بی جے پی کو اس کا احساس ہے ۔ اگر جنوب میںکرناٹک کے عوام اور خاص طور پر اقلیتیں کسی طرح کی سازش کا شکار ہوئے بغیر اور کسی کے بھکاوہ کا شکار ہوئے بغیر ایک جامع حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی کو شکست سے دوچار کردیتے ہیں تو پھر ملک کی دوسری ریاستوں کیلئے مثال قائم ہوگی اور بی جے پی کے زوال کا آغاز ہوسکتا ہے ۔