کرناٹک اسمبلی انتخابات

کانگریس اور بی جے پی اس وقت شیشے کے گھر میں بیٹھ کر کرناٹک اسمبلی انتخابات کی تیاریاں کررہی ہیں ۔ 12 مئی کو رائے دہی اور 15 مئی کو نتائج کے اعلان کی تاریخ آنے کے بعد کرناٹک میں گذشتہ چند ماہ سے جاری سیاسی گرما گرمی میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی مہم کے ہیرو وزیراعظم نریندر مودی کے کئی دورے کروائے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں مزید دورے ہوں گے ۔ کرناٹک کا سدرامیا حکومت کو اپنے عوام سے دوبارہ خطہ اعتماد حاصل کرنا ہے مگر مخالف حکمرانی لہر کا بھی اندیشہ ہے تو چیف منسٹر کی حیثیت سے سدرامیا کی 5 سالہ کارکردگی پر عوام کی رائے کیا ہوگی یہ 12 مئی کی رائے دہی کے بعد واضح ہوجائے گا ۔ اس وقت مرکز کی حکمران پارٹی کو کانگریس کی ریاستی حکومت سے سخت مقابلہ ہے ۔ سدرامیا نے انتخابات سے عین قبل کرناٹک کے لنگایت طبقہ اور ویشوا طبقہ کو مذہبی ، اقلیتی موقف دینے کا مرکز سے مطالبہ کر کے بی جے پی کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ صدر بی جے پی امیت شاہ نے اپنے دو روزہ دورہ کرناٹک کے دوران یہی بات شدت کے ساتھ پیش کی کہ سدرامیا حکومت نے لنگایت طبقہ کو اقلیتی موقف دینے کا مطالبہ کر کے ہندوؤں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔

بی جے پی کو اپنے کرناٹک لیڈر یدی یورپا کی صلاحیتوں پر کافی بھروسہ ہے چونکہ یدی یورپا بھی لنگایت طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں تو وہ اسمبلی انتخابی مہم میں کانگریس حکومت کی اقلیتی موقف پالیسی کے خلاف عوام کو واقف کروانے میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں گے ۔ بی جے پی کو اپنے قائدین کی بھڑکاؤ والی تقاریر کا سہارا حاصل ہے ۔ مودی نے اب تک سارے ملک میں صرف وعدوں اور بھڑکاؤ والی تقاریر کی ہیں ۔ عوام نے 2014 میں ان کی تقاریر پر جس طرح بھروسہ کیا تھا اب وہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ایک مشکل امتحان سے دوچار ہوں گے ۔ لیڈر کو اپنے لچھے دار باتوں اور عوام کی مظلومیت کی داستان سناکر انہیں پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے تیار کرانا ہوتا ہے ۔ رائے دہندوں کو اپنی جانب راغب کرانے کی صلاحیت رکھنے کا دعویٰ کرنے والا لیڈر عوام کی ترقی کا وعدہ کر کے انہیں گھیرے میں لے لیتا ہے اور ووٹ ڈالنے کے دن اس مقام تک لے آتا ہے اور ان کے ہاتھ بلند کروا کر ان سے حلف لیتا ہے کہ ووٹ کی حقدار صرف اس کی پارٹی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں کو اپنی انتخابی مہم اور عوام کی رائے کو مبذول کرانے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی کو اپنی مقبولیت کا زعم ہے ۔ کانگریس کو ہی یہ لڑائی سمجھداری اور سیاسی حکمت عملی سے لڑنے کی ضرورت ہوگی ۔ ہنر آزمائی کے لیے ماحول پیدا کرنے کا مرحلہ آگیا ہے ۔ کرناٹک کے عوام سیکولر مزاج کے حامل ہیں خاص کر لنگایت طبقہ اپنی سمجھداری اور مقبولیت کا ثبوت دیتا رہا ہے ۔ بی جے پی قائدین اس طبقہ کو محض یدی یورپا کے ذریعہ اپنا ووٹ بینک بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ بی جے پی کو کرناٹک کا انتخاب بہر حال جیتنے کی آرزو ہے ۔ اس کے قائدین یہ کہتے ہیں کہ کرناٹک کے نتائج آئندہ کے 2019 کے انتخابات کی کامیابی کا جیک پاٹ ہوں گے ۔ اس بی جے پی کو کرناٹک کے بعد راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے علاوہ میزورم میں عوام کا خط اعتماد حاصل کرنا ہے ۔

اس سال کے اواخر میں منعقد ہونے والے یہ اسمبلی انتخابات بی جے پی کے لیے کافی اہم ہیں ۔ لیکن بی جے پی کو کرناٹک میں کافی امیدیں وابستہ ہیں ۔ اس کا ماننا ہے کہ کرناٹک میں مخالف حکمران لہر کی وجہ سے بی جے پی کو ہی ووٹ ملیں گے ۔ اگر بی جے پی مخالف حکمرانی لہر کا فائدہ ملنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو یہی کیفیت راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ میں بھی ہوسکتی ہے جہاں بی جے پی کی حکمرانی ہے ۔ ان ریاستوں کے عوام بھی مخالف حکمران لہر کے بہاؤ میں ووٹ دیتے ہیں تو بی جے پی کا بھاری نقصان ہوگا ۔ کانگریس کی 5 سالہ کارکردگی پر کرناٹک کے عوام خوش ہیں تو اس کو دوبارہ اقتدار ملنا یقینی ہوجائے گا ۔ کانگریس کو واضح اکثریت مل جائے تو اس کا آئندہ محاذ بھی مضبوط ہوگا یعنی کرناٹک کے نتائج ہی مرکز میں مستقبل کی سیاست ، اتحاد اور حکمت عملیوں کی راہ دکھائیں گے ۔ کرناٹک میں جنتادل ایس ( دیوے گوڑہ ) کو اہم رول ادا کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ بادشاہ گر کا موقف مل جائے تو دیوے گوڑہ کانگریس کا ساتھ دیں گے یا بی جے پی کی حمایت کریں گے یہ وقت ہی بتائے گا ۔ کرناٹک میں دلتوں کے ووٹ بھی اہم ہیں اس لیے بی ایس پی کی صدر مایاوتی نے کرناٹک میں اپنے قدم رکھدئیے ہیں ۔ جنتادل ایس سے ماقبل انتخابات اتحاد کے بعد دیوے گوڑہ کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے کہ دلت کے ووٹ ان کی پارٹی کو ملیں گے ۔ اگر مسلمانوں کے ووٹ منقسم نہ ہوں تو کانگریس کو دوبارہ اقتدار پر آنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی ۔