کربھلا تو ہو بھلا…!!

خان عبدالرحمن نام کا ایک رحم دل کسان رہتا تھا ۔ جنگل کے جانور اور پرندے اس کے دوست تھے وہ انہیں اولاد سے زیادہ پیار کیا کرتا تھا اور ان کی زبان بھی خوب سمجھتا تھا ۔ ایک دن اسے جنگل میں ایک زخمی فاختہ نظر آئی ۔ اس نے مدد کیلئے پکارا وہ اسے اپنے گھر لایا ۔ اس کی تیمارداری کی اور کہا : جب تک تم تندرست نہیں ہوجاتے میرے گھر میں ہی رہنا مگر افسوس میرے پاس کاشتکاری کیلئے بیج نہیں ہے ۔ فاختہ نے کہا : پہاڑ کے دامن میں آم کا درخت ہے اس کے کھوکھلے تنے میں تمہیں بیج مل جائیں گے ۔ انہیں لے آؤ ۔ تمہاری زندگی کیلئے کافی ہوں گے ۔ خان بہت خوش ہوا ۔ دو دن کے بعد درخت کے پاس پہونچا ۔ اس نے جب کھوکھلے تنے میں جھانک کر دیکھا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تنے میں گیہوں کے دانوں کے ساتھ قیمتی موتی بھی نظر آئے ۔

اس نے دانے اٹھالئے اور کہا : دولت تمام برائیوں کی جڑ ہے اس لئے مجھے نہیں چاہئے ایسی دولت جو مفت میں حاصل ہو ۔ خان واپس آیا ۔ دانوں کو کوٹ کر فاختہ کو دیا اور اسے پیار کیا ۔ اس کا حال دریافت کیا ۔ فاختہ نے کہا : اب میں بالکل ٹھیک ہوں اڑنے کے قابل ہوگئی ہوں ۔ تم اپنے لئے کیا لائے ہو ؟ گیہوں کے دانے ۔ خان بولا ۔ موتی کیوں نہیں لائے ؟مجھ اکیلی جان کیلئے موتی کس کام کی ؟ کیا ان سے بھوک پیاس مٹ سکتی ہے ۔ گیہوں کے دانے میرے لئے کافی ہیں انہیں بو کر فصل لگاؤں گا ۔ تم بہت بھولے ہو ۔ میں تمہاری نیکی کا بدلہ تمہیں ضرور دوں گی ۔ یہ کہہ کر فاختہ اڑی اور جنگل سے ایک انگوٹھی لے آئی اور بولی : میری طرف سے یہ تحفہ قبول کرو ۔ اسے پہن کر تم جس چیز کی خواہش کرو گے فواً حاضر ہوجائے گی ۔ خان نے انگوٹھی پہن لی ۔ اس میں سے چمکدار شعائیں نکلنے لگیں ۔ وہ چونک پڑا کچھ دیر میں اس کے حواس بجا ہوئے تو آزمانے کیلئے کیلئے مجھے تھوڑا دودھ اور نان چاہئے ۔ اے لو ! خان کی زبان سے الفاظ نکلے ہی تھے کہ تازہ دودھ کا پیالہ اور نرم گرم نان ان کے سامنے آگئیں ۔ خان نے خوش ہوکر کھایا اور فاختہ کو بھی کھلایا ۔ فاختہ نے رحم دل خان کا شکریہ کہا اور طلسمی انگوٹھی کا تحفہ دے کر جنگل میں غائب ہوگئی ۔ اب عبدالرحمن بہت خوشحال تھا کیونکہ اس نے بھلائی کا کام کیا تھا ۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کربھلا تو ہو بھلا ۔