کتھوا عصمت ریزی معاملہ’ صرف میرے لئے نہیں ‘ ملک نے ایک بیٹی کھوئی ہے‘

ادھم پور۔ رومال کاندھے پر ڈال کر پہاڑوں پر جانے والے راستے پر اودھم پور سے کچھ فاصلہ پر واقعہ روانڈ میل جگہ پر کچھ دیر رکھ کر امجد علی نے سانس لی۔ ان کے ساتھ پچاس دنبے اور اتنی ہی تعداد کی بکریاں اور پندرہ گھوڑے تھے‘ نودنوں تک مسلسل مسافت طئے کرکے وہ یہاں پہنچے جو کتھوا کے گاؤ ں راسانا سے 110کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے ‘ کتھوا وہی مقام ہے جپاں پر ایک اٹھ سال کی معصوم کی پہلے اجتماعی عصمت ریزی کی گئی پھر اس کو بے رحمی کے ساتھ قتل کردیاگیا۔

اپنے مقام کشتوار پہنچنے کے لئے امجد علی کو دیڑھ ماہ کا وقت لگا۔ملک میں جہاں ایک ہی طرز کے دوگھناؤنے عصمت ریزی کے کیس میں ملک بھر میں برہمی کا ماحول تھا وہیں متوفی کے والدین امجد اور اہلیہ کے علاوہ دیگر سترہ خاندانوں نے پچھلی جمعرات راسانا چھوڑا تھا۔

ایک واقعہ میں یہ دیکھا گیا کہ ایک معصوم کو اس کے کھیلنے کودنے کی عمر میں قتل کرکے جنگل میں پھینک دیاگیا ‘ جبکہ دوسرے واقعہ میں ایک لاچار باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ ہوئی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے پر اس قدر پیٹا گیا کہ وہ مر گیا۔امجد نے کہاکہ’’ ہم پر ناقابل برداشت دباؤ ڈالاگیا‘ ہمیں دھمکیاں دی گئی ‘ ہمیں دھمکی میں کہاگیا کہ ہمارے گھر اور مویشے جلا دئے جائیں گے‘‘۔ ہم کس طرح لڑائی کرسکتے ہیں؟

ہماری بکریوں کو ماردیں گے تو ہمارے لئے کیاباقی رہے گا؟ ہم بکروالا ہیں۔ یہی ہمارے زندگی کا گذار ا ہے۔ اگر یہ مر گئے تو ہم مرجائیں گے۔ ہم نے پہلے ہی ایک بچی کو کھودیا ہے۔متوفی کے والد ایک کم سخن شخص ہے جو اپنی بکریوں کے پیچھے رہتا ہے اور نے راساناسے اپنے سفر کی شروعات سے قبل اپنے گھروں کی مکمل طور پر صفائی کردی۔ وہ دوبارہ کتھوا واپس ہونے کے بارے میں اب نہیں سونچ رہے ہیں۔

اس گروپ کے دیگر دو ڈیرا والوں کو بھی واپسی کا یقین نہیں ہے۔امجد نے کہاکہ ’’ واپس آکر کیاکریں گے؟‘‘ انہوں نے کچھ توقف کے بعد کہاکہ’’ اگر اس ملک میں کہیں انسانیت باقی ہے تو اس کیس کو ایسا دیکھا جائے گا کہ وہ صرف میری بیٹی نہیں تھی ‘ بلکہ ہندوستان کی بیٹی تھی‘‘۔بکر والا کے بیس کے قریب خاندان اور دیگر گرما کا موسم شروع ہونے کے ساتھ جموں میں توقف کرنا پسند نہیں کرتے۔

وہ سرمائی موسم میں پہاڑوں کی ہریالی کی کمی کے سبب یہاں پر پہنچتے ہیں تاکہ ان کے مویشیوں کا کچھ کھانا مل جائے اور سال میں ایک مرتبہ میویشوں کی خرید وفروخت کے ذریعہ کچھ پیسے بھی کمالیتے ہیں‘ یہاں پر وہ عید الاضحی کے لئے بکروں کی فروخت بھی کرتے ہیں۔

امجد کا کہنا ہے کہ ان کے دیگر بچوں کے لئے وہ پریشان ہیں ‘ نہ صرف وہ بلکہ دیگر قبائیلی بھی اپنے بچوں کو لے کر کافی پریشان ہیں اگر ہم دوبارہ یہاں پر ائے اور اس قسم کا واقعہ پیش آیا تو ہمارے لئے بہت مشکل ہوجائے گا۔

امجد نے بڑے فخر کے ساتھ کہاکہ میری بیٹی حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ امجد نے کہاکہ آصیفہ کے قتل کے بعد جس قسم کے حالات کتھوا میں پیش ائے اور لوگ سڑکوں پر اتر کر قاتلوں کے بچاؤ میںآگے ائے اس کو دیکھ کر اور سن کر ہم تو گھبرا گئے تھے ۔ انصاف کی تمام امیدیں ختم ہوگئی تھی او رہمارے اندر اس بات کا احساس پیدا ہوگیا ہے کہ ہمیں دوبارہ یہاں پر نہیں آنا ہے۔