کاہل شخص اور عقلمند بڑھیا

کسی زمانے میں ایک جگہ بہت ہی خوب صورت گاوں تھا۔ جس میں ایک کاہل شخص رہتا تھا۔ وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ اور نہ ہی اس کے پاس کچھ تھا۔ وہ صبح سے شام تک کسی کونے میں بیٹھ کر بچوں کا کھیل تماشا دیکھتا اور رات کسی کھنڈر یا ویران جگہ سو کر گزارتا تھا۔ایک دن وہ سونے کیلئے کسی ویرانے میں گیا۔ اچانک اس کا پاوں کسی گڑھے میں پھنس گیا۔ جب پاوں کو گڑھے سے نکالا تو اس کی نظر ایک ڈبے پر پڑی جو اشرفیوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ بے انتہا خوش ہوا اور اسے نکال کر دیکھنے لگا۔ رات بھر خوشی کے مارے اسے نیند ہی نہ آئی۔
ایک بڑھیا کے گھر کی طرف چل پڑا جو اکیلی بہت بڑے گھر میں رہتی تھی کاہل آدمی نے سونے کی بارہ اشرفیوں کے بدلے میں ایک کمرہ کرایہ پر لیا۔ اور کچھ سامان لینے بازار کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے کچھ برتن کپڑے اور اپنی ضرورت کی دوسری چیزیں خریدیں اور گھر آگیا۔کچھ دنوں کے بعد اس کے سارے برتن گندے ہوگئے۔ کیونکہ وہ ایک سست آدمی تھا۔ کوئی کام کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ خیر اس نے سامان کھڑکی سے باہر پھینکا اور اپنے آپ سے کہا: چلو ذرا آرام کرلوں پھر بازار جاکر نئی چیزیں خریدے گا۔بوڑھی عورت جب باہر کی صفائی کرنے نکلی تو اس کی نظر ان چیزوں پر پڑی۔ اس نے دل میں کہا یہ چیزیں تو پرانی نہیں ہیں۔ پھر یہاں کیوں پھینکی گئیں۔ وہ تمام چیزیں گھر لے آئی۔ اس نے برتن دھو کر الماری میں سجائے۔ کپڑے اور بستروں کے غلاف دھو کر صحن میں پھیلا دیئے۔جب وہ کاہل شخص آرام کے بعد نئی چیزیں خریدنے کیلئے باہر نکلا۔ اور اس کی نظر ان چیزوں پر پڑی تو وہ سوچنے لگا یہ تو وہی چیزیں ہیں جن کی مجھے ضرورت ہے۔ کیوں نہ بڑھیا سے خرید لوں خیر وہ سونے کے سکے لے کر بوڑھی عورت کے پاس گیا۔ اور اس سے وہ تمام چیزیں خرید لیں۔کچھ دنوں کے بعد پھر وہ چیزیں میلی ہوگئیں۔ اس نے پھر باہر پھینک دیا۔ بوڑھی عورت سمجھ گئی ہ یہ شخص بے وقوف اور کاہل ہے۔ اس نے اسے سبق سکھانے کا ارادہ کرلیا۔آہستہ آہستہ اس کے تمام سکے ختم ہوگئے۔ اور وہ پھر سے مفلس ہوگیا۔ ایک دن جب آخری سکہ بھی خرچ ہوگیا۔ تو وہ بوڑھی عورت کے پاس آکر اپنا دکھ بیان کرنے لگا۔ بڑھیا نے جب دیکھا کہ اسے سبق مل چکا ہے تو اس نے کہا تم فکر مت کرو تمہاری حرکتوں سے میں سمجھ گئی ہوں۔ کہ تم بے وقوف ہو اس لئے میں نے تمہارے دیئے ہوئے سکے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس سے کچھ زمین اور مال مویشی بھی خریدے ہیں۔ اب تم سستی چھوڑ کر خوب محنت سے اس زمین پر کام کرو۔ مجھے احساس ہوگیا ہے کہ سستی اور بے وقوفی سے بادشاہ فقیر اور عقلمندی سے فقیر بادشاہ بن سکتا ہے۔‘‘