کانگریس کے الوی نے کہاکہ پرسنل لاء میں کسی کی مداخلت ممکن نہیں

نئی دہلی:کانگریس لیڈر راشد علوی نے جمعرات کے روز طلاق ثلاثہ کے متعلق پیش ائے الہ آباد ہائی کورٹ کے جائزہ جس میں عدالت نے اس کو ’’ مسلم خواتین کے خلاف‘‘ قراردیا کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کرسکتا۔علوی نے دعوی کیاکہ ہے کہ عدالت کے مشاہدہ کو مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کی مخالفت کرتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’’ میں عدالت کے تمام فیصلوں کا احترام کرتا ہوں‘ مگر ہائی کورٹ کے مشاہدے سے میں متفق نہیں ہوں۔ یہ فیصلہ دستور کے مطابق فراہم کی گئی مذہبی آزادی میں مداخلت ہے‘‘۔فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے کی بات کرتے ہوئے الوی نے کہاکہ اکثر جج حضرات پرسنل لاء بورڈ کی اہمیت ’’ نہیں سمجھتی‘‘۔’’ اس بات پر معذرت چاہتا ہوں کہ اکثر وبیشتر ججس پرسنل لاء بورڈ کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔

وہ کس طرح وجود میں آیا اور اسکی اہمیت کیاہے۔ کسی ایک مذہب کو ماننا اور اس کی تبلیغ کرنا ایک بنیادی حق ہے جس کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔الوی نے کہکہ ’’ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں اور اس کے پرسنل لاء میں مداخلت کرے۔

تاہم الوی نے اس بات کا بھی خلاصہ کیاکہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے پارٹی کی نہیں۔اس مسلئے پر دوہری دراخواست کی سماعت کرتے ہوئے ‘ جسٹس سنت کمار نے طلاق ثلاثہ کو ’’ مسلم خواتین کے ساتھ ظلم‘‘قراردیتے ہوئے کہاکہ تھا کہ کوئی پرسنل لاء دستور سے اوپر نہیں ہے۔

اس کے برعکس کانگریس ایم رینوکاچودھری نے فیصلے کی ستائش کی اور کہاکہ کافی عرصہ سے اس کا انتظار تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ مجھے افسوس ہوا کہ اس پر عدالت کافی دیر بعد اپنا ردعمل پیش کیا کیونکہ دستور میں دے گئے مرعات سے معاشرے کا ایک حصہ کافی دیر سے محروم رہا ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ مسلم بہنیں کو ان کی زندگی میں مزیدتحفظ اور احترام ملے گا‘‘۔فیصلہ کی حمایت میں یونین انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ منسٹر اور سینئر بی جے پی لیڈر وینکیا نائیڈو نے کہاکہ ’’ مذہب ایک عقیدہ ہے مگر قانون دستور کے تحت بنتا ہے جس پر عمل کرنے کی ذمہ داری تمام پر عائد ہوتی ہے‘‘۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا۔ مارکسٹ لیڈر برندا کارت نے اعلان کیاکہ ا ن کی پارٹی طلاق ثلاثے کے خلاف آوازپرساتھ دیگی۔برانداکارت نے کہاکہ ’’ ہم حمایت کرتی ہیں مسلم خواتین جن پر تین طلاق کے ذریعہ ظلم کیاجارہا ہے ‘ جس پر دنیاکے کسی ملک میں عمل نہیں کیاجارہا ہے۔ ’’ یہ مذہبی امور کا حصہ نہیں ہے اور اس پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ردعمل بھی غلط ہے۔ اور مسلم سماج کا ایک بڑا حصہ بھی یہی محسوس کررہا ہے‘‘۔
IANS