کانگریس کیلئے بڑھتی مشکلات

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتاموجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
کانگریس کیلئے بڑھتی مشکلات
لوک سبھا انتخابات میںبری طرح سے ہار اور شکست کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی اس کی مشکلات سے ابھی سنبھلنے نہیں پائی ہے ۔ پارٹی کو اب بھی کئی طرح کی مشکلات پیش آ رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ فوری طور پر کانگریس کا جو بحران ہے یا بحران جیسی جو صورتحال ہے وہ دور شائد نہیں ہوگی اور پارٹی کو مزید مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ملک کی ریاستوں میں کانگریس کا انتخابی وجود باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ کئی ریاستوں میں پارٹی لوک سبھا کی ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ جن ریاستوں میں کانگریس قدرے طاقتور اور مستحکم ہے اور جہاں بی جے پی سے مقابلہ کررہی ہے یا اسے شکست دے سکتی ہے وہاں اس کیلئے کیڈر اور قائدین کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات اور اس کی مہم کے دوران یہ دیکھا گیا تھا کہ کانگریس قائدین اختلافات کو پس پشت ڈال چکے ہیں ۔ اگر لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو کامیابی حاصل ہوجاتی تو شائد یہ اختلافات دبے کے دبے رہ جاتے اور منظر عام پر آنے نہیںپاتے ۔ تاہم اب جبکہ کانگریس کو شکست ہوچکی ہے ۔ پارٹی صدر راہول گاندھی خود صدارت سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر اٹل دکھائی دے رہے ہیں اور مشکلات تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں تو کانگریس قائدین میں اختلافات ‘ انحراف ‘ استعفے بہت زیادہ ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ پارٹی کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے حالانکہ کانگریس نے شائد اسی صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے سونیا گاندھی کو پارلیمانی پارٹی کی لیڈر منتخب کرلیا تھا ۔ یہ تاثر یا یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ سونیا گاندھی سرگرم سیاست سے دور نہیںہوئی ہیں بلکہ وہ ہنوز ذمہ داریاں سنبھال رہی ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سونیا گاندھی کا یہ انتخاب یا پارٹی کی جانب سے پیام دینے کی کوشش بھی پارٹی قائدین اور کیڈر پر کوئی اثر دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور خاص طور پر پارٹی کی پنجاب یونٹ میں اختلافات شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پنجاب کے چیف منسٹر امریندر سنگھ اور ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو میں اختلافات شدید ہوگئے ہیں۔
پنجاب میں جہاںچیف منسٹرا ور ریاستی وزیر کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں وہیںدوسری ریاستوں میں بھی پارٹی کیلئے صورتحال ٹھیک نہیں ہے ۔ مہاراشٹرا میں جہاں چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںپارٹی کے سینئر لیڈر مستعفی ہوچکے ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ وہ بی جے پی میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ تلنگانہ میں کانگریس کو حالانکہ لوک سبھا انتخابات میں قدرے راحت ملی ہے اور اسے تین حلقوں سے کامیابی ملی تھی لیکن کانگریس کی یہ خوشی دائمی نہیںرہ گئی ہے بلکہ اس کے 12 ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیںاور انہوںنے کانگریس مقننہ پارٹی ہی کو ٹی آر ایس میں ضم کرنے کیلئے اسپیکر سے ملاقات کرکے سفارش کی ہے ۔ اسطرح ریاست میں کانگریس کے محض چھ ارکان اسمبلی رہ جائیں گے اور وہ اپوزیشن کے موقف سے بھی محروم رہ جائے گی ۔ اسمبلی میں وہ تیسرے نمبر پر چلی جائے گی ۔ اسی طرح کرناٹک کی صورتحال کو بھی مستحکم نہیں کہا جاسکتا ۔ حالانکہ وہاں اختلافات کو ختم کرنے یا کم کرنے کیلئے در پردہ کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا ۔ کرناٹک کی کانگریس ۔ جے ڈی ایس حکومت کو اگر فوری کوئی خطرہ نہیں ہے تب بھی اس کا مستقبل ضرور خطرہ میں دکھائی دیتا ہے اور بی جے پی صورتحال کا کبھی بھی استحصال کرتے ہوئے حکومت کو زوال کا شکار کرسکتی ہے ۔
قومی سطح پر پارٹی صدر مایوس ہوچکے ہیں ‘ ریاستی یونٹ میںچیف منسٹر اور وزیر کے درمیان اختلافات ہیں ‘ ایک ریاست میں اہم قائدین مستعفی ہو رہے ہیں ‘ گجرات میں بھی شائد کانگریس ارکان اسمبلی کو خریدنے اور توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ‘ ایک ریاست میں مخلوط حکومت کا مستقبل مستحکم دکھائی نہیں دیتا ۔ ملک کی اہم ریاستوں میں پارٹی کا انتخابی وجود ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسے میںکانگریس پارٹی کیلئے مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ یقینی طور پر انتخابی شکست اہمیت رکھتی ہے لیکن جو حال شکست کی وجہ سے کانگریس کا ہوا ہے وہ دوسری جماعتوں کا نہیںہوا تھا ۔ کانگریس کو صورتحال کو بالکل ہی قابو سے باہر ہونے سے پہلے بہتر بنانے کیلئے کمر کسنے کی ضرورت ہے ورنہ حالات مزید دگرگوں ہوسکتے ہیں۔