کانگریس کو کمزور کرنے والے

دوستو! مجھ کو نہیں ہے اپنی بربادی کا غم
غم تو اس کا ہے کہ داناؤں سے نادانی ہوئی
کانگریس کو کمزور کرنے والے …
کانگریس اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے، گزشتہ 10 سال سے اس کا سیاسی گراف گھٹتا جارہا ہے ۔ تاہم حالیہ چند مہینوں سے صدر کانگریس کی حیثیت سے راہول گاندھی نے پارٹی کو قوت بخشنے والی ترکیب کے ساتھ دن رات محنت کرتے ہوئے پارٹی کیڈر میں حوصلہ پیدا کردیا ہے ۔ مگر اس درمیان پارٹی کے ہی قابل اور سمجھدار قائدین کی دانستہ یا نادانستہ لب کشائی نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ خاصکر اس وقت جب ملک میں انتخابات کا موسم گرم رہتا ہے ، سابق میں گجرات کے انتخابات کے موقع پر بھی کانگریس کے سینئر ترین لیڈر نے وزیر اعظم مودی کے خلاف سخت ریمارک کیا تھا جس کا فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوا۔ نتیجہ میں گجرات میں کانگریس انتخابات جیتنے کے قریب پہنچ کر پیچھے رہ گئی ۔ اب ملک کی پانچ ریاستوں اور آنے والے دنوں میں لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں ہونے والی ہیں، کانگریس لیڈروں نے رام مندر اور پاکستان کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے مخالف پاکستان اور مخالف مسلم پارٹیوں کو سیاسی فائدہ پہنچانے کا کام کیا ہے۔ گجرات انتخابات کے وقت کانگریس کے سینئر لیڈر منی شنکر ایئر نے وزیر اعظم مودی کے خلاف بیان دیا تھا اور ’’ نیچ ‘‘ لفظ کا استعمال کیا تھا۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران اس ریمارک کا فائدہ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ منی شنکر ایئر نے مجھے نیچ ذات سے تعلق رکھنے والا شخص قرار دیا ہے اور یہ گجرات کی توہین ہے لہذا گجرات کو اس کا جواب دینا چاہیئے۔ گجرات انتخابات میں کانگریس کا پلڑا بھاری پڑ رہا تھا اور عین ممکن تھا کہ بی جے پی کو شکست ہوجاتی ، لیکن منی شنکر ایئر کے ریمارک کا بی جے پی والوں نے زبردست فائدہ اُٹھایا اور گجرات کے رائے دہندوں کا ذہن تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب ملک کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ ، میزورم اور تلنگانہ میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور ان ریاستوں میں کانگریس کا موقف بہتر ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے ۔ ایسے میں کانگریس کے دو قائدین ششی تھرور اور نوجوت سنگھ سدھو نے علی الترتیب ایودھیا اور رام مندر اور پاکستان بمقابلہ جنوبی ہند جیسے ریمارک کرکے کانگریس کو سیاسی طور پر شدید نقصان پہنچانے والی حرکت کی ہے۔ کانگریس نے اگرچیکہ ششی تھرور کے بیان سے خود کودور رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کی اس طرح کی اظہار لاتعلقی سے ششی تھرور کے ادا کردہ جملوں سے پہنچنے والا سیاسی نقصان ختم نہیں ہوگا۔ ششی تھرور نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے ’’ اچھے ہندو ‘‘ تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے اچھے ہندو اور برے ہندو کی تاویل پیش کرکے ہندوؤں کوناراض کیا تو دوسری طرف انتخابات کے عین موقع پر رام مندر کا مسئلہ چھیڑ کر بی جے پی کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ کانگریس ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر روکنے کی کوشش کررہی ہے۔ رام مندر کا مسئلہ ہی بی جے پی اور آر ایس ایس کی سیاسی ترقی کا زینہ ہے ، اس مسئلہ کو کانگریس قائدین نے بار بار زندہ کیا ہے اور ہر بار بی جے پی کو فائدہ ہوا ہے۔ ششی تھرور نے ہوسکتا ہے کہ یہ ریمارکس ایک اچھے تناظر میں کئے ہوں گے کہ ایک اچھا ہندو ایودھیا میں رام مندر کے حق میں نہیں ہوگا کیونکہ مسجد کی جگہ پر مندر بنانے کیلئے کوئی بھی اچھا ہندو تیار نہیں ہے، لیکن اس بیان کا سیاسی نقطہ نظر سے گہرا تعلق پیدا ہوگیا ہے ، کانگریس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔راجستھان اور مدھیہ پردیش میں جہاں اسے اقتدار حاصل ہونے کی اُمید ہے وہاں بی جے پی پھر سے مندر کارڈ استعمال کرے گی۔ پاکستان کے تعلق سے کانگریس لیڈرنوجوت سنگھ سدھو نے ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونے کا مظاہرہ کیا اور کہا تھا کہ وہ جنوبی ہند سے زیادہ پاکستان کو جانا پسند کرتے ہیں گویا انہوں نے ہندوستان کے ایک ہی خطہ کا تقابل پاکستان سے کرتے ہوئے نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے۔ پاکستان مخالف پارٹی کو یہ ریمارک سیاسی بونس کا کام کرے گا اور کانگریس کو شدید نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ کیا کانگریس قائدین میں سے چند گروپ بی جے پی سے درپردہ طور پر ملے ہوئے ہیں؟ سوال یہی اُٹھ رہا ہے کہ کانگریس قائدین ہی بی جے پی کو سیاسی طور پر قوت بخشنے کا کام کررہے ہیں۔ لہذا پارٹی کو اس سلسلہ میں سخت گیر موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اور اپنے قائدین کو پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے ریمارکس نہ کریں جو تنازعہ پیدا کرتے ہیں۔ خاص کر انتخابات کے وقت بی جے پی کو فائدہ پہنچانے ایسے بیانات سے گریز کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم مودی کے خلاف ’’ نیچ ‘‘ کاریمارک کرنے کے بعد کانگریس نے سینئر لیڈر منی شنکر ایئر کو معطل کردیا تھا لیکن 9 ماہ بعد ان کی معطلی واپس لے لی گئی۔ اب ششی تھرور اور نوجوت سنگھ سدھو کے ریمارکس نے سیاسی حلقوں میں گرمی پیدا کردی ہے۔ بی جے پی کے قائدین ان ریمارکس کا سیاسی فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ ایسے میں کانگریس کو یہ غور کرنا ہوگا کہ آیا اس کاوجود صرف بی جے پی اور دیگر طاقتوں کو سیاسی تقویت پہنچانے کیلئے رہ گیا ہے؟۔