کانگریس کا مستقبل

چمن پر بجلیاں منڈلارہی ہیں
کہاں لے جاؤں شاخ آشیانہ
کانگریس کا مستقبل
کانگریس کو مسلسل ہزیمت کا سامنا ہے۔ ملک کی قدیم ترین پارٹی اس وقت خود کو چکی کے دو پاٹ کے درمیان پھنسی محسوس کررہی ہے ۔ صدر کی حیثیت سے استعفیٰ کی پیشکش کرتے ہوئے راہول گاندھی نے پارٹی کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کی مگر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ان کی پیشکش کو مسترد کردیا ۔ لوک سبھا میں 52 ارکان کے ساتھ کانگریس کو اپوزیشن کے کمزور موقف کے ساتھ حکومت کی من مانی پالیسیوں پر دبی آواز میں احتجاج کرنا پڑے گا ۔ کانگریس کے لیے یہ صورتحال نازک ہے ۔ آخر 134 سالہ قدیم پارٹی ایوان پارلیمنٹ میں صرف 52 ارکان کے ساتھ سرکاری بنچوں کا کس طرح مقابلہ کرسکے گی ۔ اس صورتحال سے ریاستی سطح پر بھی کانگریس کے اندر انتشار کی کیفیت پیدا کردی ۔ ریاستوں میں خاص کر راجستھان ، مدھیہ پردیش میں پارٹی کو داخلی ناراضگیوں سے نمٹنا ہے ۔ اس لئے کانگریس کا قومی موقف جب کمزور ہوتا ہے تو علاقائی کیڈر بھی مایوسی کا شکار ہوتا ہے ۔ اور اب کانگریس کے ساتھ ساتھ اس کے صدر راہول گاندھی کے مستقبل کے بارے میں تشویش پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ راہول گاندھی کے استعفیٰ کی پیشکش پر سیاسی حلقوں میں کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن پارٹی کے لیے یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ راہول گاندھی کے محض استعفیٰ سے پارٹی کا کیا فائدہ ہوگا اور اس پر کیا بُرا اثر پڑے گا ۔ کانگریس کو نریندر مودی کی سونامی بہالے گئی ہے تو اس لہر کا دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی شکار ہوئی ہیں ۔ مگر اس سے کسی کو میدان تو چھوڑ کر فرار ہونا نہیں چاہیے ۔ راہول گاندھی کے استعفیٰ سے کانگریس پر مزید دباؤ بڑھے گا، اس نازک صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ وقت تک انتظار کیا جائے ۔ انتخابات میں ناکامی کا سامنا صرف کانگریس نے نہیں کیا بلکہ ان تمام علاقائی پارٹیوں کو دھکہ پہونچا ہے جو مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف انتخابی مہم میں سرگرم تھے ۔ بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی نے یو پی میں مہا گٹھ بندھن کیا تھا اور یہ دونوں پارٹیاں بری طرح ناکام رہیں تو آیا مایاوتی اور اکھلیش یادو نے استعفیٰ کی پیشکش کی ہے ، ہرگز نہیں ۔ یہ دونوں علاقائی طور پر اپنی سیاست کو سنبھالنے کی کوشش کررہے ہیں اسی طرح مغربی بنگال میں بھی ممتا بنرجی نے اپنی ریاست میں بی جے پی کے تیزی سے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں ناکامی ہوئی ، اس پر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ پارٹی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں نشستوں میں اضافہ یا کمی یہ تو وقت وقت کی بات ہے ۔ آج بی جے پی کو شاندار ووٹ ملے ہیں یہی بی جے پی 30 سال قبل صفر لیول پر تھی ۔ 1984 میں لوک سبھا میں صرف دو ارکان پارلیمنٹ تھے ۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی ہی پارٹی کے صدر تھے اور انہوں نے بھی اپنا استعفیٰ پیش کیا تو پارٹی نے مسترد کردیا ۔ آج یہی پارٹی برسوں کی مسلسل عوامی رابطہ کاری مہم چلا کر پارلیمنٹ میں 303 نشستوں کے ساتھ ایک مضبوط حکمرں پارٹی کا موقف رکھتی ہے ۔ جب سے نریندر مودی نے قومی سیاست میں قدم رکھا ہے کانگریس کو پیچھے ہی ڈھکیلا جارہا ہے ۔ ایسے میں پارٹی صدارت راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے تو یہ مزید کمزوروں کی علامت ہوگی ۔ 2014 میں بھی مودی کی کامیابی پر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی نے استعفیٰ کی پیشکش کی تھی ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ان کے استعفیٰ کو مسترد کردیا تھا بلکہ ان کی قیادت پر کامل یقین کا بھی اظہار کیا تھا ۔ اگر انتخابات میں ناکامی سے مایوس ہو کر خود پارٹی سربراہ میدان چھوڑ کر بھاگنے کی تیاری کرے تو ملک بھر میں کانگریس کارکنوں اور قائدین کے حوصلے پست ہوں گے ۔ اس لیے پارٹی قیادت کو شروع سے ہی ایک چٹان کی طرح قائم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ صدر پارٹی چٹان کی طرح کھڑے ہو کر حالات کا سامنا کرے اور آئندہ کے لائحہ عمل کو تیار کرتے ہوئے خود اس پر عمل کرے اور پارٹی کارکنوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے تو پارٹی کو ملک کے ہر ایک رائے دہندہ تک پہنچ کر ان کا دل جیتنے کا موقع ملے گا ۔ بنیادی سطح پر پارٹی ورکرس کو سرگرم کرنے اور ہر علاقہ ، شہر ، محلہ ، گاؤں اور بستیوں میں عوامی مسائل کی فوری یکسوئی کے لیے کارکنوں کو مصروف رکھا جائے تو بلا شبہ کانگریس عوامی پارٹی بن کر ابھرے گی ۔۔