کانگریس کا مارچ

ہندوستان میں فرقہ پرستی کے ذریعہ سانحات کا وقوع ہونا نئی بات نہیں ہے لیکن جب کوئی سیاسی سانحہ ہوتا ہے تو یہ مفاد پرستی کی آخری حد تک پہونچ جاتی ہے۔ مرکز میں جب سے بی جے پی زیرقیادت مودی حکومت آئی ہے، عدم رواداری کے مسئلہ پر سیاسی، سماجی، ادبی اور مذہبی صفوں میں شدید احتجاج درج ہورہا ہے۔ سب سے پہلے صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے عدم رواداری پر اظہار افسوس کیا تھا اور سماج میں بدامنی پھیلانے والوں پر نکتہ چینی کی تھی۔ عوامی شعبہ سے وابستہ تمام اہم شخصیتوں نے عدم رواداری اور قتل و غارت گری کے واقعات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے ایوارڈس واپس کئے ہیں۔ سیاسی صفوں میں صدر کانگریس سونیا گاندھی نے دو قدم آگے بڑھ کر مودی حکومت کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے راشٹرپتی بھون تک مارچ نکالا۔ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی کو پیش کردہ یادداشت میں تقریباً 100 کانگریس قائدین نے ملک میں بڑھتی عدم رواداری کے خلاف احتجاج کیا۔ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بڑھتے واقعات کے لئے مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سونیا گاندھی نے ہندوستانی عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے لیکن بی جے پی نے اس احتجاج کو محض اپوزیشن پارٹی کی مایوسی اور ناکامی کی علامت قرار دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کو ملک کی رواداری پر درس دینے کا حق نہیں ہے کیونکہ ہندوستان صدیوں سے ایک روادار ملک رہا ہے۔

یہ رواداری مہذب معاشرہ کی شان و شناخت ہے۔ اس کو کانگریس اپنی علامت بناکر سیاست نہیں کرسکتی جس پارٹی کی حکومت میں نریندر مودی جیسے قائدین نے اپنی سیاسی طاقت کو فروغ دینے میں کامیابی حاصل کی ہے، اب وہی پارٹی رواداری اور عدم رواداری کا رونا روہتے ہوئے احتجاج کرے تو یہ ایک بدترین موقع پرستی ہے۔ گجرات فسادات کے بعد مرکز میں دو مرتبہ حکمرانی کے فرائض انجام دینے والی کانگریس نے گجرات فسادیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ نریندر مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بھی اس نے ہمت نہیں دکھائی یہاں تک کہ گجرات کے کانگریس رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی موت کے خلاف حصول انصاف کے لئے سرگرداں ذکیہ جعفری کی بھی اخلاقی ، سیاسی، قانونی مدد نہیں کی ۔ آج بھی احسان جعفری کی موت انصاف کے حصول کو ترس رہی ہے لیکن قانون و انصاف کی دہائی دینے والی سیاسی قیادت نے کسی بھی محاذ پر گجرات مہلوکین اور ان کے رشتہ داروں کے لئے حصول انصاف میں مدد نہیں کی گئی۔ آج جس عدم رواداری کے نام پر سیاسی مارچ نکالا گیا، وہ بظاہر ملک کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے لیکن ان حالات کو پیدا کرنے کے لئے کانگریس بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو سے لیکر اندرا گاندھی تک کانگریس کی سیکولر شناخت ایک مضبوط ستون کی طرح ہندوستانی جمہوریت کا سہارا بنی رہی لیکن اندرا گاندھی کے بعد کانگریس کی ساکھ متاثر ہوئی۔

راجیو گاندھی نے اپنے پارٹی کی شان کو برقرار رکھنے کی کوشش ضرور کی لیکن وقت اور سیاسی حالات کے آگے ان کے بھی قدم ڈگمگا گئے، اب سونیا گاندھی نے کانگریس کی بقاء کے لئے جو جدوجہد کی شروع کی ہے، اس میں انہیں ناکامی ہی ہورہی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ بی جے پی کو سیاسی طور پر طاقتور بنانے کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ منہ زور اور بے لگام لیڈر ہندوستانی معاشرہ کی تہذیب کو تہس نہس کرتا ہے تو مرکزی قیادت چپ رہتی ہے اور معاشرہ مسلسل ناانصافیوں کا شکار ہوکر اب اس پر ایسی طاقت مسلط کردی گئی ہے جو اپنے فرقہ پرستانہ منصوبوں کو اندھا دھند طریقوں سے روبہ لارہی ہے۔ آج کی دنیا علم کی انتہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مرکز کا حکمراں طبقہ کو اس حقیقت کا قطعی علم نہیں ہے۔ اس علم کی وجہ سے آج سارا دانشور طبقہ عدم رواداری کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے تو اس پر بھی کانگریس نے اپنی سیاست کا سکہ چلانے کے لئے مارچ کا سہارا لیا۔ اگر کانگریس کو سیکولر کے معنی معلوم ہوتے تو وہ اپنے دور میں ہندوستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھتی۔ مسلمانوں کو محض ووٹ بینک بناکر نہیں رکھا جاتا لیکن اب سونیا گاندھی نے ماضی کی خرابیوں سے سبق حاصل کیا ہے تو پارٹی کو ہندوستان کے سیکولرازم کو فروغ دینے اور فرقہ پرستوں کو ناکام بنانے کے لئے دیانت دارانہ کوشش کا ایک موقع مل رہا ہے۔