کانگریس کا طاقتور ہونا ضروری

شکستہ ساز سے ٹوٹی ہوئی صدا لے گا
سوائے غم کے مرے پاس سے وہ کیا لے گا
کانگریس کا طاقتور ہونا ضروری
بہوجن سماج پارٹی نے سیکولر اتحاد اور مخالف فرقہ پرست گروپ کو مضبوط بنانے کی کوششوں پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ سیاسی قائدین کو اپنے مفادات کی خاطر ذہنی طورپر منتشر ہوتا دیکھا جاچکا ہے۔ دلتوں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا جوش ظاہر کرنے والی سیاسی پارٹیوں نے اصل مقابلہ سے قبل ہی اپنی منتشر ذہنیت کاثبوت دیدیا ہے ۔ کانگریس کو پھر ایک بار سیاسی تنہائی کاشکار بنانے کی پہلی کوشش میںبی ایس پی سربراہ مایاوتی سب سے آگے دکھائی دے رہی ہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ بی ایس پی آنے والے 2019 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف عظیم اتحاد کا حصہ ہوں گی لیکن مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں تنہا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مایاوتی نے کانگریس اتحاد کو دھکہ پہونچایا۔اس سے کئی ذہنوں میں سوال پیدا ہورہے ہیں ، سوال کا پیدا ہونا فطری عمل ہے لیکن اسے دوسرے کے سامنے رکھنا ایک آرٹ کہلاتا ہے ۔ بی ایس پی کے رویہ پر جو سوال پیدا ہواہے اس کو اب کانگریس اپنی دیگر حلیف پارٹیوں کے سامنے کس طرح رکھے گی اور اتحاد کو مضبوط بنائے رکھنے میں کیا کرے گی یہ اس کی سیاسی صلاحیتوں پر منحصر ہے ۔ اب تک کانگریس کی قیادت نے سوال کا جواب دینے کے آرٹ کا خاص مظاہرہ نہیں کیا ۔ راہول گاندھی کی سیاسی صلاحیتوں کی لذت سے کانگریس کو اب تک جو کچھ فائدہ مل رہا ہے اسے دیکھ کر پارٹی کے قائدین میں کچھ ہمت تو پیدا ہوئی ہے لیکن حلیف پارٹیوں کے قائدین کے تیور خاص کر مایاوتی کا طرزعمل تکلیف دہ دکھائی دے رہا ہے ۔ مایاوتی نے جس طریقہ سے کانگریس کو نشانہ بنانا شروع کیاہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کانگریس کی قیادت کو قومی سطح پر اُبھرنے کا موقع دینا نہیں چاہتی ۔ مرکز میں وزارت عظمیٰ کے لئے راہول گاندھی کو درپردہ طورپر غیرموزوں تصور کرتے ہوئے مایاوتی نے اپنے مقاصد اور سیاسی دیرینہ آرزو کی خاطر اتحاد سے دور ہوچکی ہیں۔ مایاوتی کے اس رویہ نے کرناٹک کی سیاست میں بھی ہلچل پیدا کردی ہے ۔ کرناٹک بی ایس پی کے واحد رکن اسمبلی اور ریاستی وزیر این مہیش نے حکومت سے استعفیٰ دیدیا ۔ یہ استعفیٰ کرناٹک کی سیاسی صوتحال کو تبدیل کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے ۔ اقتدار کے حصول میں ناکام بی جے پی تازہ تبدیلی کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گی ۔ کل تک بی جے پی کے خلاف مضبوط سیکولر اتحاد کا گروپ تشکیل دینے والی مایاوتی اب اچانک ایک دوسرے کو شش و پنچ میں مبتلا کرنے لگے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور بی جے پی کے خلاف مل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ ایک خوشگوار تبدیلی سمجھی گئی تھی لیکن پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے وقت مایاوتی کے تیور نے بی جے پی کے امکانات کو محفوظ کردینے کا کام کیا ہے۔ ان ریاستوں میں بہوجن سماج پارٹی کا کوئی مضبوط موقف نہیں ہے اس پارٹی کی اتحاد سے علحدگی سے کانگریس کو خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے لیکن کرناٹک میں بی ایس پی کے اکلوتے لیڈر نے اپنی بہن جی کی خاطر استعفیٰ دیکر ایک بحث چھیڑدی ہے کہ آیا کمارسوامی حکومت کی بنیادوں کو دھیرے دھیرے سے ایک ایک کرکے کمزور کردیا جائے گا ۔ مرکز کی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کا متبادل سیاسی اتحاد بنانے کانگریس کی مساعی کا چھوٹی پارٹیوں پر ایک حد تک اثر دیکھا گیا ہے مگر بی ایس پی کی علحدگی نے بھی ان پارٹیوں کو پس پردہ سیاسی محرکات کا جائزہ لینے کیلئے مجبورر کردیا ۔ کانگریس کے لئے یہ بڑی بدبختی کی بات کہی جارہی ہے کہ عین اسمبلی انتخابات سے قبل مایاوتی نے ہاتھ کھینچ لیا۔مگر غور طلب امر یہ ہے کہ مایاوتی کے بغیر بھی کانگریس اپنے بل پر تمام مذکورہ ریاستوں میں سیاسی طاقت بن کر اُبھر سکتی ہے جب کوئی پارٹی سیاسی طاقت بن کر اُبھرتی ہے تو چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اس کے حصار میں آنے کو بے چین ہوجاتی ہیں۔ فی الحال کانگریس کو تجربہ ہوچکا ہے کہ اس کو عظیم اتحاد بنانے کیلئے سب سے پہلے خود کو مضبوط ہونے کا ثبوت دینا پڑے گا اور مدھیہ پردیش ، راجستھان کے اسمبلی انتخابات اس کو سیاسی مضبوطی دلانے میں مدد کرتے ہیں تو پھر اس کا سیاسی پلڑا بھاری ہوگا وہ آئندہ عام انتخابات کے لئے مخالف بی جے پی گروپ کومضبوط بنانے میں کامیاب ہوگی ۔
ہندوستانی معاشرہ اورمِی ٹو تحریک
ملک میں جنسی ہراسانی اور زیادتیوں کے الزامات کا سلسلہ اب مرکزی وزارت سے وابستہ شخصیتوں کے قریب پہونچ گیا ہے تو نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت اور کی سرپرست تنظیمیں آر ایس ایس اور راشٹرایہ سیویکاسمیتی نے خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ می ٹو تحریک نے ہندوستانی معاشرہ کی بدترین تصویر کو نمایاں کیا ہے ۔ خواتین کے غیرمحفوظ ہونے اور کام کے مقامات پر خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور امتیازات کی شکایت برسوں سے پائی جاتی ہے لیکن اب یہ مسئلہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ متاثرہ خواتین نے دلیری کا مظاہرہ کرکے خود پر گذرنے والی افسوسناک کیفیت کا برسرعام اظہار کرنا شروع کیا ہے لیکن مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر 9 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے الزامات سامنے آنے کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے کوئی سرکاری بیان کا نہ آنا بھی تعجب خیز ہے لیکن آر ایس ایس کے جوائنٹ سکریٹری دتاتریہ ہوشابلے نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے مئی ٹو تحریک کی تائید کی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر آر ایس ایس کے موقف کو خاموشی سے مہم کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ایم جے اکبر کے خلاف اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے اور انھیں وزارت سے ہٹ جانے کیلئے کہا جاتا ہے تو خواتین کے ساتھ انصاف کا ماحول پیدا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن سماج میں رونما ہونیو الی اس تبدیلی کا اثر کام کے مقام پر خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو یہ اچھی شروعات ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کے قوانین بھی وضع کرنے کی ضروت ہے۔ مرکزی وزیر بہبود خواتین و اطفال منیکا گاندھی نے جنسی ہراسانی کے تمام کیسوں کی جانچ کے لئے سینئر ججس اور قانونی افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے ساتھ وزارت بہبود خواتین و اطفال کو یہ غور کرنا بھی ضروری ہے کہ اس فریم ورک کے تحت قوانین کو کس طرح موثر بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا احیاء نہ ہونے پائے ۔