کانگریس پلینری سیشن

روز حالاتِ محبت تو بدلتے ہی رہے
تم نہ بدلے تو مرے دل کا تقاضہ بدلا
کانگریس پلینری سیشن
ملک گیر سطح پر فرقہ پرستوں کی مشنری سارسوں کی طرح گردن اٹھائے دن رات شور مچا کر عوام کو وعدوں اور نعروں سے گمراہ کرتے ہوئے اقتدار پر ان لوگوں کو بٹھانے میں کامیاب ہوگئی ۔ گذشتہ چار سال سے جو کچھ ہورہا ہے اس کا زبانی مقابلہ کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں خاص کر کانگریس نے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے اور حکومت کی خرابیوں و سنگینی سے واقف کروانے میں خاص کامیابی حاصل نہیں کی ۔ پارٹی نے کانگریس پلینری سیشن میں بھی ایسا ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا جس سے عوام کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ متبادل حکومت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ پلینری سیشن بھی کانگریس کے عام اجلاسوں کی طرح ثابت ہوا ۔ یعنی اس سیشن کو خود احتسابی کا اہم موقع بنانے کے بجائے زیادہ تر وقت مودی حکومت پر الزام تراشیوں اور برا بھلا کہنے کی نذر کردیا گیا ۔ کانگریس کے بارے میں بی جے پی قائدین جو کچھ کہتے آرہے ہیں وہی حرکتیں کانگریس کرتی نظر آرہی ہے ۔ حکومت کی برائی کرتے ہوئے کانگریس اپنی گرتی ساکھ سے ہونے والی دلی تکلیفوں کو چھپانا چاہتی ہے ۔ راہول گاندھی نے پارٹی کے صدر کی حیثیت سے سیشن میں وہی کچھ کہا جو وہ ہر جگہ اور ہر موقع پر حکومت کے خلاف کہتے آرہے ہیں ۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ عوام یہ باتیں سن سن کر بیزار ہوچکے ہیں ۔ حکمراں پارٹی کے خلاف تنقیدیں کرنا اپوزیشن کا ذیلی موضوع ہونا چاہئے ۔ مگر کانگریس نے اس کو اپنا اصل موضوع بنالیا ۔ این ڈی اے حکومت کی شکست کا ہدف مقرر کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر کانگریس کے پاس این ڈی اے کے متبادل کے طور پر کونسی حکمت عملی تیار ہے ۔ سونیا گاندھی نے پارٹی ورکرس سے کہا کہ این ڈی اے کی شکست کے لیے اتحاد کے دروازے کھولے جارہے ہیں ۔ کانگریس نے 84 ویں پلینری سیشن میں منظورہ سیاسی قرارداد میں 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ قابل عمل پروگرام کے ساتھ ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ تعاون کے لیے رجوع ہونے کا منصوبہ بنانے کی بات کہی گئی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس بذات خود اب واحد طاقت نہیں رہی جو کسی طاقتور کا تنہا مقابلہ کرسکے ۔ اس طرح کی اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس نے بی جے پی کیڈر کا کام آسان کردیا ہے کہ وقت ان کا ہی ساتھ دے گا ۔ کانگریس کو خود کانگریسوں کی وجہ سے شکست کھانی پڑ رہی ہے ۔ اس کا پلینری سیشن میں سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا گیا ۔ اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم دہلی میں منعقدہ اس سیشن کی خصوصیت یہ ظاہر کی گئی کہ صدر کانگریس کی حیثیت سے راہول گاندھی نے نئی کانگریس ورکنگ کمیٹی بنانے کا اشارہ دیا ، جس میں سینئیر قائدین اور نوجوان لیڈروں کا ملا جلا گروپ ہوگا ۔ بزرگ کانگریس قائدین کے تجربات سے نوجوان خون کو تربیت دینے کی بات کہی گئی مگر غور طلب امر یہ ہے کہ اگر کانگریس میں نوجوان قائدین کون ہیں اور کتنے ہیں ، جو بھی نوجوان قائدین اس وقت پارٹی میں ہیں یہ تمام موروثی طور پر پارٹی میں موجود ہیں ۔ خود صدر کانگریس کو پارٹی کی ذمہ داری وراثت میں ملی ہے ۔ ان کے بعد راجیش پائلٹ کے فرزند سچن پائلٹ ہیں ۔ مادھو راؤ سندھیا کے فرزند جیوتر ادتیہ سندھیا ہیں دیگر چند ایک نوجوان لیڈرس بھی اپنے والد یا کانگریس کے کسی سینئیر سیاستداں کے وارث ہیں ۔ بنیادی طور پر زمینی سطح سے اُٹھ کر آنے والے نوجوان لیڈروں کو کانگریس نے اب تک خاطر میں نہیں لایا ہے ۔ اس لیے کانگریس کے اندر نئے خون کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ پارٹی میں دیگر نوجوان لیڈروں میں جاوید ندیم ، سمتا دیو اور راگنی نائک کا نام ہی لیا جارہا ہے ۔ لیکن قومی طاقت کی حامل اس پارٹی کو مضبوط ہونے کے لیے کیڈرس سطح پر بھی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاقائی پارٹی قائدین کو نظر انداز کرنے اور داخلی طور پر اختلافات کو دور کرنے کی جانب زیادہ توجہ دینے سے پارٹی کو دیہی ، منڈل ، تعلقہ ، ضلع ہیڈکوارٹرس ریاستی یونٹوں کو طاقتور بنانے میں مدد ملے گی ۔ پارٹی ہائی کمان نے ورکرس کو سخت محنت کرنے اور دل و جان سے عوام کی خدمت کا مشورہ تو دیا ہے لیکن عموماً یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ پارٹی کے اہم قائدین کیڈرس کی محنت کو چشم پوشی کی نذر کردیتے ہیں ۔ انہیں ان کی محنت کا صلہ نہیں دیا جاتا ۔ بات غور کرنے کی ہے کہ پارٹی ٹکٹ جن افراد کو دیتی ہے ان کا انتخاب اگر پارٹی کے انتخابی نشان ’ ہاتھ ‘ کو طاقتور بنانے میں کام نہیں کرے گا تو سیاسی ساکھ پر اثر ضرور پڑے گا ۔۔