کانگریس اور وزارت عظمیٰ

شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلادیا کبھی اک چراغ بجھادیا
کانگریس اور وزارت عظمیٰ
ایسا لگتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات مسائل اور کسی ایجنڈہ یا منشور کی بجائے شخصیتوں کی بنیاد پر لڑے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے نریندر مودی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا گیا ہے ۔ اب تک اس پر جو رائے بنتی نظر آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ بی جے پی کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جاسکے ۔ پارٹی اگر کچھ مسائل کو موضوع بحث بنا بھی رہی ہے تو ایسے مسائل ہیں جن کا ملک و قوم کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عوام کے درمیان مذہبی بنیادوں پر منافرت پھیلانا ہی اس کی کوشش ہے ۔ یہ بی جے پی کا معاملہ ہے جو اپنے منصوبے پر عمل کا آغاز بھی کرچکی ہے تاہم کانگریس پارٹی اس مسئلہ پر ہنوز لیت و لعل کا شکار نظر آ رہی ہے ۔ حالانکہ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ کانگریس پارٹی راہول گاندھی ہی کو آئندہ وزارت عظمی امیدوار قرار دیتی ہے اور اگر یو پی اے کو تیسری معیاد کیلئے اقتدار ملتا ہے تو اس کی باگ ڈور راہول گاندھی ہی کے ہاتھ میں ہوگی لیکن پارٹی کو جن حالات اور عوامی برہمی کا سامنا ہے اس کو دیکھتے ہوئے پارٹی کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ابھی قطعیت پر نہیں پہونچ سکی ہے ۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارٹی راہول گاندھی کے وزارت عظمی امیدوار کی حیثیت سے اعلان سے قبل انہیں کچھ وقت فراہم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ عوام کی نظروں میں کوئی بہتر امیج بناسکیں اور پھر جب انہیں باضابطہ طور پر وزارت عظمی امیدوار بنادیا جائے تو وہ عوامی مقبولیت کی ایک لہر کو آگے بڑھاسکیں۔ یہ کانگریس کی حکومت عملی ہوسکتی ہے لیکن حالات ایسے نظر آتے ہیں کہ یہ کانگریس کیلئے ایک مسئلہ ہے کہ راہول کو باضابطہ طور پر یہ ذمہ داری دی جائے یا نہیں ۔ خاص طور پر چار ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد سے کانگریس اس معاملہ میں بہت احتیاط کر رہی ہے ۔ حالانکہ ان نتائج کے بعد ہی سے راہول گاندھی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے لیکن پارٹی اسی صورتحال کی وجہ سے احتیاط بھی کرتی نظر آر ہی ہے ۔ راہول کی بہن پرینکا گاندھی کے کانگریس پارٹی اجلاس میںشرکت کے بعد جو قیاس آرائیاں شروع ہوئی تھیں وہ ختم کردی گئی ہیں اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ پرینکا گاندھی انتخابات میں مقابلہ نہیں کرینگی ۔ ایسے میں راہول گاندھی کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے اور خود وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ تیسری معیاد کیلئے دعویدار نہیں ہیں ۔
اس قیاس کو بھی بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا کہ کانگریس پارٹی اور راہول گاندھی وزارت عظمی امیدوار کی آنکھ مچولی کے درمیان عوام کی نبض جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے دو دن قبل ہی کہا تھا کہ کانگریس پارٹی ان پر جو کچھ بھی ذمہ داری عائد کرتی ہے وہ اسے پورا کرنے سے گریز نہیں کرینگے ۔ وہ ہر ذمہ داری کو قبول کرنے تیار ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کے مختلف گوشے انہیں وزارت عظمی امیدوار نامزد کرنے کا شدت سے مطالبہ کر رہے ہیںا ور مرکزی وزیر آسکر فرنانڈیز نے آج یہ واضح طور پر کہا ہے کہ راہول گاندھی تسلیم کریں یا نہ کریں وہ کانگریس کے وزارت عظمی امیدوار ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔

منموہن سنگھ کے اعلان کے بعد اور کوئی دوسرا امیدوار سوائے راہول گاندھی کے کانگریس کے پاس دستیاب نہیں ہے اور معلنہ ہو یا غیر معلنہ راہول گاندھی ہی کانگریس کے وزارت عظمی امیدوار ہوسکتے ہیں۔ انہیں اور کانگریس پارٹی کو بھی یہ پوری طرح احساس ہے کہ کانگریس جن مسائل اور حالات کا شکار ہے اس میں اگر کوئی اس کی مدد کرسکتا ہے تو وہ راہول گاندھی ہی ہیں۔ یہ الگ سوال ہے کہ راہول کس حد تک پارٹی کی مدد کرتے ہوئے اسے مشکل حالات سے باہر نکال پائیں گے ۔ خاص طور پر عام آدمی پارٹی کے ابھرنے اور عوام میں اس پارٹی کے تعلق سے جو جوش و خروش پیدا ہوا ہے اس کے بعد کانگریس پارٹی کو ہر قدم پر احتیاط کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور راہول گاندھی بھی اس حقیقت سے صر ف نظر نہیں کر پا رہے ہیں۔بی جے پی کو بھی اب اس حقیقت کا اعتراف ہوچکا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو وقتی جذبہ قرار دیتے ہوئے مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
گذشتہ کچھ وقت سے راہول گاندھی جس طرح سے سرگرم ہوئے ہیں اور بعض مسائل پر انہوں نے جس طرح سے سر عام پارٹی حکومتوں پر تنقید کی ہے وہ عوام میں ان کی شخصی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش ہی ہے ۔ چاہے یہ داغدار قانون سازوں سے متعلق آرڈیننس ہو کہ مہاراشٹرا میں آدرش اسکام کی رپورٹ کو مسترد کرنے کا مسئلہ ہو۔ لوک پال بل کی منظوری میں بھی راہول کا رول رہا ہے جس کا انا ہزارے بھی اعتراف کرچکے ہیں۔ یہ کوشش بھی راہول کو عوام میں اپنی امیج کو بہتر بنانے ہی کا موقع فراہم کرتی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی راہول گاندھی کو باضابطہ طور پر وزارت عظمیٰ امیدوار نامزد کرنے سے قبل عوام کی نبض ٹٹولنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ لمحہ آخر تک انتظار کرتے ہوئے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی پارٹی کوئی فیصلہ کرسکتی ہے لیکن یہ واضح ہوچکا ہے کہ پارٹی فی الحال اس موقف میں قطعی نہیں ہے کہ وہ پورے یقین اور حوصلے کے ساتھ راہول گاندھی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کرسکے حالانکہ غیر معلنہ طور پر یہ بات تقریبا ًیقینی ہی کہی جاسکتی ہے ۔