کانگریس اور تلگودیشم ، تقسیم ریاست کی راہ پر گامزن

حیدرآباد۔/29ڈسمبر، ( سیاست نیوز) کانگریس اور تلگودیشم دونوں ریاست کی تقسیم کی حمایت کی راہ پر گامزن ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتیں متحدہ آندھرا کیلئے اٹھائی جانے والی عوامی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہیں۔ صدر وائی ایس آر کانگریس پارٹی مسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی نے آج اپنی یاترا کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سونیا گاندھی ریاست کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور چندرا بابو نائیڈو ریاست کی تقسیم میں سونیا گاندھی کی مدد کررہے ہیں، کرن کمار ریڈی بھی ان عزائم کو پورا کرنے کیلئے اپنا تعاون پیش کررہے ہیں۔ جگن موہن ریڈی نے کہا کہ کانگریس صرف چند ووٹوں اور نشستوںکیلئے ریاست کی تقسیم کے گھناؤنے عمل کو انجام دینے کی کوشش میں مصروف ہے جبکہ ریاست کے عوام بالخصوص کسانوں اور طلبہ کو ہونے والے مستقل نقصانات سے متفکر ہیں جس کی کانگریس اور تلگودیشم پارٹی کو بالکلیہ طور پر کوئی فکر نہیں ہے۔ رکن پارلیمنٹ کڑپہ نے بتایاکہ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی زندگی میں ریاست کو متحد رکھنے کیلئے جو اقدامات کئے گئے وہ ناقابل فراموش ہیں لیکن ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے بعد ریاست کی تقسیم کے ذریعہ سیما آندھرا عوام کو نقصان پہنچانے کی جو سازش تیار کی گئی ہے

اس سے صرف کانگریس اور تلگودیشم کو فائدہ حاصل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں سیاسی جماعتیں عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہیں چونکہ دونوں ہی ریاست کو متحد رکھنے کی کوششوں سے فرار اختیار کرتی نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے آج دن بھر اپنی یاترا کے دوران علحدہ ریاست کے حامیوں کو نشانہ بناتے ہوئے سیما آندھرا عوام میں خدشات پیدا کرنے کی ممکنہ کوشش کی۔ جگن موہن ریڈی نے کہا کہ چندرا بابو نائیڈو کانگریس کے اس فیصلہ کو قبول کرنے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جب مسٹر نائیڈو نے صدرجمہوریہ سے ملاقات کی تو انہوں نے کیوں ایک لفظ بھی متحدہ آندھرا کی حمایت میں نہیں کہا۔ اسی طرح جب اے پی این جی اوز قائدین نے متحدہ آندھرا پردیش کی تائید میں مکتوب طلب کیا تب بھی مسٹر نائیڈو نے اے پی این جی اوز قائدین کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔ جگن موہن ریڈی نے بتایا کہ ریاست کی تقسیم کو روکنے کیلئے صرف اور صرف وائی ایس آر کانگریس بغیر کسی سیاسی مفاد کے جدوجہد میں مصروف ہے۔ مسٹر جگن موہن ریڈی نے بتایا کہ ریاست کی تقسیم کی صورت میں سیما آندھرا علاقوں میں برقی و پانی کے مسائل تو پیدا ہوں گے ہی ساتھ ہی ساتھ ملازمتوں اور تعلیم کے حصول کیلئے بھی نوجوانوں کو دربدر ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔