کانگریس اور بی جے پی کی انتخابی مہم

میرے تغیر حال پہ مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
کانگریس اور بی جے پی کی انتخابی مہم
اپوزیشن پارٹیوں میں لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک مضبوط محاذ بنانے میں ناکامی سے نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی راہ وسیع ہوتے دکھائی دے رہی ہے۔ عام انتخابات کے لئے کانگریس اور بی جے پی نے انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔ دونوں کے درمیان مضبوط تضاد پیدا ہورہا ہے۔ بطور اپوزیشن کانگریس کو کئی حلقوں میں بہتری کی اُمید ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں کانگریس کے حصہ میں لوک سبھا نشستیں کم آتی ہیں تو اس پارٹی کو مرکز تک پہونچنے میں شاید 2024 ء تک انتظار کرنا پڑے۔ بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی میں ناکامی کا فائدہ مودی حکومت کو ہی حاصل ہوگا۔ 2014 ء میں جس طرح مقبول عام ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ٹھیک اسی نہج پر اس سال کے انتخابات میں مہم چلائی جارہی ہے۔ مگر کانگریس بعض حلقوں میں پیشرفت کررہی ہے تو یہ راہول گاندھی کی لگاتار کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔ اپوزیشن کے عظیم اتحاد کے بغیر بھی کانگریس کو اکثریتی ووٹ ملتے ہیں تو اس کی وجہ ملک کے اہم مسائل کی جانب توجہ دلانے اور حکمراں پارٹی کی بدعنوانیوں کو آشکار کرنا بتائی جارہی ہے۔ اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس نے اپنا اثر تو برقرار رکھا ہے مگر وہ مقبول عام ووٹ حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔ انتخابات جیتنے کے لئے ووٹ فیصد میں اضافہ ہونا بھی ضروری ہے۔ راہول گاندھی اپنی پارٹی کے ووٹ فیصد کو بڑھانے کی حکمت عملی پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہوتے ہیں تو یقینا لوک سبھا میں کانگریس کا موقف پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ این ڈی اے کے استحکام کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا مقبول عام ووٹ منقسم نہیں ہوا ہے جبکہ اپوزیشن کا ووٹ بُری طرح پھوٹ کا شکار ہے۔ کانگریس یا سیکولر ووٹ کاٹنے کی کوشش میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہیں جو علاقائی سطح پر طاقتور ہیں۔ تلنگانہ ہو یا آندھرا یا پھر ٹاملناڈو، کولکتہ، اوڈیشہ میں علاقائی پارٹیوں کو زیادہ سے زیادہ مقبول عام ووٹ حاصل کرنے کا ہنر آتا ہے۔ اس وجہ سے قومی پارٹی یا عظیم اتحاد کا ووٹ فیصد گھٹ گیا ہے۔ علاقائی پارٹیوں کا رجحان یا جھکاؤ حکمراں پارٹی کی جانب ہونا ایک فطری امر ہے۔ مفاد پرستی کی خاطر کسی بھی علاقائی پارٹی کو حکمراں پارٹی کے قریب ہوتا دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن طریقہ کار ملک اور علاقہ کی ترقی کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ ملک میں دو پارٹیوں کا نظام نہیں رہا۔ اس لئے علاقائی پارٹیوں کو قومی پوزیشن حاصل کرنے میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تلنگانہ میں 17 لوک سبھا حلقوں پر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں اور دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ تمام 17 کے منجملہ 16 پر کامیاب ہوگی گویا تلنگانہ میں کانگریس کو ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملنے والی ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی کوششیں بھی کارگر نہیں ہوں گی۔ ہر ریاست میں کانگریس کے لوک سبھا حلقوں کی تعداد گھٹتی ہے تو وہ اپوزیشن کے طور پر بُری طرح ناکام رہے گی۔ جب راہول گاندھی نے کانگریس کی باک ڈور سنبھالی اور 2009 ء کے لوک سبھا انتخابات میں یو پی میں انتخابی مہم چلائی تھی 80 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ 21 پر کانگریس کامیاب ہوئی تھی مگر یہ کیفیت 2014 ء کے انتخابات میں دکھائی نہیں دی۔ کانگریس کا صفایا ہوگیا صرف راہول گاندھی اور سونیا گاندھی اپنی نشست بچا سکے تھے۔ اس مرتبہ 2019 ء کے عام انتخابات میں اگر یوپی سے کانگریس کو ملنے والی متوقع نشستوں میں کمی آتی ہے تو سمجھا جائے گا کہ کانگریس کی اہم اسٹار مہم جو پرینکا گاندھی نے بھی کوئی خاص اثر نہیں دکھایا۔ یوپی اور بہار میں سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت محسوس کی گئی تاہم ان ریاستوں میں رائے عامہ کو متحرک کرنے میں وہ ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ نتیجہ میں مرکز تک پہونچنے کی کوشش میں مزید شدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے مگر کانگریس کی موجودہ حکمت عملی اور پارٹی کے اسٹار مہم جو لیڈروں کی رفتار سے اندازہ ہورہا ہے کہ اُنھوں نے 2019 ء کے بجائے 2024 پر نظر رکھی ہے یعنی ایک اور میعاد کے لئے مودی کو موقع دینا چاہتے ہیں۔ اگر واقعی ایسی حکمت پائی جاتی ہے تو یہ غلط ہے۔ حکمراں پارٹی نے اپوزیشن پارٹیوں کو متحد ہونے سے روکنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے تو اس کے اسباب و علل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ اپوزیشن پارٹیوں میں اختلافات عام بات ہے لیکن اپوزیشن پارٹیوں کا ایک ہی مقصد ہونا چاہئے کہ ہ خودکشی کے رجحان کو ترک کرکے کامیابی کے زینے طے کرنے کی کوشش کریں۔
جے کے ایل ایف پر پابندی
مرکز کی بی جے پی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی کے بہانے جموں و کشمیر میں مختلف طریقوں سے عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ ممنوعہ حریت لیڈر یٰسین ملک کی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر انسداد دہشت گردی قانون کی دفعہ 3 کے تحت امتناع نافذ کیا ہے۔ کابینی کمیٹی برائے سلامتی اُمور کا یہ فیصلہ وادی کشمیر کی جاریہ نازک صورتحال کو مزید تشویشناک بنادے گا۔ بظاہر حکومت کشمیر امن بحال کرنے کی مشق کررہی ہے مگر اس کے بعض فیصلے وادی کشمیر کی صورتحال کو دھماکو بنانے میں آگ پر تیل کا کام کرسکتے ہیں۔ مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ تقریباً ایک ماہ بعد آیا ہے اس سے قبل 24 فروری کو وادی میں علیحدگی پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی گئی جس میں 130 علیحدگی پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔ وادی کشمیر میں جماعت اسلامی کے کئی قائدین کو حراست میں لیا گیا۔ اب جے کے ایل ایف کے خلاف کارروائی سے مرکزی حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے یہ غیر واضح ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل ملک میں ووٹ بینک مضبوط کرنے کا جو ماحول پیدا کیا جارہا ہے اس سے صرف مختصر مدتی فائدہ حاصل ہوگا لیکن اس کے نتائج بھیانک اور دیرپا ہوسکتے ہیں۔ ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطراک کا عذر پیش کرنے والی مرکزی حکومتوں کے سامنے ایسی دیگر ککئی تنظیمیں ہیں جو ملک کی یکجہتی اور امن کے لئے خطرہ پیدا کررہی ہیں۔ بہرحال موجودہ حالات ایک بھیانک دور کی طرف لے جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔