کابینی رد و بدل ‘ سیاسی ترجیحات

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کابینہ میںرد و بدل کیا ہے ۔ نو نئے چہروں کو حکومت میں شامل کیا ہے جبکہ چار وزرا کو منسٹر آف اسٹیٹ درجہ سے ترقی دے کر کابینی درجہ فراہم کردیا ہے ۔ ویسے تو کابینہ میں رد و بدل اور توسیع کرنا وزیراعظم کا اختیار تمیزی ہوتا ہے اور اسی کا نریندر مودی نے استعمال بھی کیا ہے ۔ اس پر کسی کو تبصرہ کرنے کا کوئی اختیار یا حق حاصل نہیں ہوتا ۔ تاہم جہاں تک آج مرکزی کابینہ میں کی گئی تبدیلیوںاور نئے چہروں کی شمولیت کا سوال ہے اس پر اتنا احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو رد و بدل ہوا ہے وہ سرکاری کام کاج کی سہولت یا عوام کو بہتر خدمات کی فراہمی سے تعلق نہیں رکھتا ۔ حکومت اس ڈھنگ سے کام کر رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے سامنے عوام کی سوچ یا ان کی سہولت کی کوئی فکر یا اس کے کوئی معنی نہیں رہ گئے ہیں۔ حکومت کو اتنا یقین ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلے ملک کے عوام اسی کے حق میں اپنی رائے ظاہر کرینگے ۔ اسے نوٹ بندی کے فیصلے اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے اپنے اس خیال کو مزید تقویت فراہم کرنے میں مدد ملی ہے ۔ اس کے علاوہ اس ملک کا تقریبا سارا میڈیا بھی اس کا حامی اور ہمنوا بنا ہوا ہے ۔ وہ حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے عوام کے ذہنوں پر حکومت کے اثر کو مسلط کرنے کی کوشش میں جٹا ہوا ہے ۔ ایک چینل دوسرے چینل پر اپنی حکومت سے وفاداری ثابت کرنے میں برتری لینا چاہتا ہے ۔ اس صورتحال میں حکومت نے آج جو تبدیلیاں کی ہیں ان کا حکومت کے کام کاج یا سرکاری محکموں کی حالت کو بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے ۔ اب جو کچھ بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ سراسر حکومت کے عزائم و مقاصد کی تکمیل ‘ اس کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش اور آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل سیاسی حالات بنانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیںہے ۔ حکومت کی یہ کوشش عوام کی خدمت کرنے کے اس کے عہد پر سوال پیدا کرتی ہے لیکن ایسا تاثر بھی عام ہے کہ حکومت کو نہ اپنے عہد کی کوئی پرواہ رہ گئی ہے اور نہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں کوئی سنجیدگی دکھاناچاہتی ہے ۔ وہ صرف سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے جدوجہد کر رہی ہے اور اسے ابھی سے آئندہ انتخابات میں کامیابی کی فکر لاحق ہے ۔
اسی لئے وہ اسی سمت میں اقدامات کرنے کو ترجیح دے رہی ہے ۔ حکومت کی ساری کوشش یہی ہے کہ سیاسی طور پر اسے اتنی سبقت اور بالادستی حاصل ہوجائے کہ اپوزیشن کو کوئی سوال کرنے یا سر اٹھانے کا موقع ہی دستیاب نہ ہونے پائے ۔ اب انتخابات میں اس کی یہ کوشش کتنی کامیاب ثابت ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت اور انتخابات کے نتائج ہی بتاسکتے ہیں اور اس تعلق سے ابھی سے کوئی پیش قیاسی نہیں کی جاسکتی لیکن یہ ضرور ہے کہ حکومت نے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے حکومت کے کام کاج کا بھی سہارا لینا شروع کردیا ہے ۔ یہ مقاصد کوئی ملک و قوم کی فلاح و بہبود یا ترقی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مخصوص سیاسی نقطہ نظر کو سارے ملک پر اور ملک کے سارے عوام پر مسلط کرنے کے ہیں۔ اسی سمت میں حکومت کام کر رہی ہے اور اسی ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے وہ ہر دستیاب سہولت اور مشنری سے استفادہ کر رہی ہے ۔ اب مرکزی کابینہ میں دھرمیندر پردھان کو ریلوے کا قلمدان سونپا گیا ہے ۔ اس کے مقاصد یہی ہیں کہ اوڈیشہ میں آئندہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کیلئے فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ ریاست میں بیجو جنتادل ایک ایسی طاقت بنی ہوئی ہے جہاںکسی بھی اپوزیشن جماعت کو اپنی جگہ بنانے کا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے ۔ بی جے پی اب مرکزی وزارت اور اس کے قلمدانوں کا سہارا لے کر ریاست کی سیاست پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے ۔ اسی طرح نرملا سیتارمن کو دفاع کا قلمدان دیتے ہوئے خواتین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ اس کیلئے ضرورت یہ تھی کہ خواتین تحفظات کو یقینی بنایا جاتا لیکن بی جے پی اس سمت میں کام کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے اور وہ صرف دکھاوا چاہتی ہے ۔
مختار عباس نقوی کو مسلمانوں کے مفادات کو کچلنے کی ان کی مہم پر انعام سے نوازا گیا ہے اور انہیں منسٹر آف اسٹیٹ کے درجہ سے ترقی دیتے ہوئے کابینی قلمدان سونپ دیا گیا ہے ۔ حالانکہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ایسا کرنے سے اقلیتوں میں اپنے لئے جگہ بنا پائیگی ۔ ہوسکتا ہے کہ مختار نقوی کے کچھ قریبی حلقوں میں اس اقدام پر حکومت کی واہ واہی ہو لیکن حقیقت میں جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے وہ کبھی بھی ایسی حکومت سے متاثر نہیں ہوسکتے جو اس ملک میں اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے پر تلی ہوئی ہو ۔ جہاں مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنایا جار ہا ہو اور جہاں مسلمانوں کے کھانے پینے پر تحدیدات عائد کی جا رہی ہوں۔ حکومت بھلے ہی اپنے طور پر کابینی رد و بدل کی وجوہات چاہے کچھ بھی بتائے لیکن اس کے سراسر سیاسی مقاصد ہی ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ ان تکمیل کس حد تک ہو پاتی ہے ۔