کائنات ارض و سماوی میں ایک ہستی خدائے ذوالجلال کے وجود پر

عینی شاہدعدل
انسان کی تخلیق عبادت و بندگی کے لئے کی گئی ہے اور عبادت و بندگی کا اعلیٰ مقام عشق و محبت ہے یعنی انسان کی تخلیق کامقصد محبت الٰہی ہے ، ذکر و شغل ، عبادت و ریاضت اور طاعت و بندگی کا محور عشق الٰہی ہی ہے ؎
سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں میں تیرا مزدور نہیں
سجدۂ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے
خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے
اس خاکدانِ گیتی میں بہت سے بندگانِ خدا گزرے ہیں جو عبادت و بندگی کے اونچے و بلند مراتب پر فائق ہوئے ۔ کوئی مرتبہ ’’خلعت‘‘ پر فائز ہوئے تو کوئی ہمکلامی سے مشرف ہوئے ۔ کل کائنات میں ایک ہی ہستی ہے جو بندگی کے اعلیٰ و ارفع مقام ’’محبوبیت‘‘ پر فائز و متمکن ہوئی اور وہی ذات خلاصۂ کائنات ہے ، اسی ہستی سے باغیچۂ دنیا میں رنگ و بو باقی ہے ، انہی سے شمس و قمر ضوفشا ں ہیں ، وہی وجہہ تخلیق کائنات ہیں ۔ شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؔ نے اسی راز ہائے سربستہ کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا ؎

ہو نہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو ، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو ، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
وہی ذات ہے جس نے خدائے تعالیٰ کے وجود کو پایا ، سمجھا اور دوسروں کو اسی ذات وحدہٗ لاشریک کا پتہ بتایا ، وہ نہ ہوتے تو ہم مسلمان نہ ہوتے ، وہ نہ ہوتے تو دنیا میں توحید خالص نہ ہوتی ہم نے خدا کو نہ دیکھا ہے ، نہ سنا ہے ، اور ہم نے ذات وحدہ کا ادراک کیا ہے اور نہ ہی عرفان حاصل کیا ہے ۔ اس کے باوصف ہمارے ایمان و ایقان میں رمق برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ، جنت و دوزخ ہم سے اوجھل ہیں، پھر بھی ان پر ہمارا ایمان ہے ۔ سابقہ انبیاء اور ان پر کتابوں کے نزول کو ہم نے دیکھا نہیں ہے پھر بھی ہم تسلیم کرتے ہیں ہم نے نورانی مخلوق فرشتوں کا مشاہدہ نہیں کیا لیکن ہم ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں ہیں کیونکہ ہمارے ایمان کی بنیاد نہ عقل و شعور پر ہے اور نہ فہم و ادراک پر اور نہ ہی علم و تجربہ پر بلکہ ہمارے ایمان کی بنیاد صرف اور صرف اس ذات اقدس کی شہادت پر ہے جو خدائے ذوالجلال کے وجود کی شاہد عدل ہے اور وہ ذات ہمارے آقا و محبوب خدا محمد عربی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم ہیں ، انہی کی گواہی او ربیان پر ہم نے ایمان لایا ہے ۔ اُسی ذات پر ہمارا بھروسہ و توکل ہے ، ہم کو خدا کے وجودپر کسی دلیل و برھان کی حاجت نہیں ہے ، کسی سائنسی شواہد کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہم صرف ہمارے آقا کے بیان و تبلیغ پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔
ہم اس ذات بابرکت کی روحانیت ، نورانیت اور لطافت کا کیا ادراک کرسکتے ہیں جس نے فرش پر رہکر عرش والے کاسراغ بتایا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس کے حقیقی مولیٰ و آقا سے جوڑا ، پس خالق و مخلوق کے درمیان موجود وسیلۂ کبریٰ کو ہماری ناقص فہم اور کوتاہ عقل قطعاً ادراک نہیں کرسکتی ۔
مولانا ابوالکلام آزاد رقمطراز ہیں :
’’چونکہ حقیقت محمدی روح حیات کاآخری نقطہ اور سر چشمہ قرار پائی، لاجرم(یقینا) سیر و اقدام کی آخری منزل بھی وہی ٹھہری اس کے بعد جو کچھ ہے فوق اور وراء الوراء تعینات ہیں ، اس لئے نہ سیر کی وہاں گنجائش ہے ، نہ قافلہ طلب اور محمل شوق کا وہاں گزر بلکہ طائرِ فکر و مرغ خیال بھی اس کی فضاء لاتعین میں درماندہ پر وبال سوختہ ؎

ای برون از وھم و قال و قیل من
خاک برفرق من و تمثیل من
(مولانا روم )
بحوالہ رسولِ رحمت
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو اس ہستیٔ مقدس کا عرفان تھا اس لئے وہ نہایت مؤدب اور دل و جان سے فدا تھے ۔ بارگاہِ رسالت کی عظمت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کی محفل بابرکت میں جلوہ گر ہوتے تو ایسے باادب ہوتے کہ اپنے جسم کو تک حرکت نہ دیتے گویا کہ وہ انسانی شکل میں جامد مجسمے ہیں اور ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کی محفل مبارک میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سواء کوئی اپنی نگاہ اُٹھاکر دیکھنے کی تاب نہ رکھتے ۔ سالہا سال آپ ﷺ کی صحبت بافیض میں رہنے والے صحابہ کرام کا بیان ہے کہ تم مجھ سے آپ ﷺکے حلیہ مبارک سے متعلق سوال نہ کرو کیونکہ میں کبھی جی بھر کے آپ ﷺ کو دیکھ نہ سکا ۔
مشہور و جلیل القدر صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا رعب اس طرح طاری رہتا ہے کہ میں ایک مسئلے سے متعلق آپ ﷺ سے دریافت کرنا چاہا تو دو سال تک میں آپ ﷺ سے سوال نہ کرسکا ۔ اس لئے صحابہ کرام کسی اجنبی دیہاتی کے منتظر رہتے کہ وہ آئیں اور حضور پاک ﷺ سے سوالات کریں۔
بارگاہ رسالت کے ادب کاایہ عالم تھاکہ صحابہ کرام آپ ﷺ کے درِ اقدس پر حاضر ہوتے تو اپنے ناخنوں سے دروازے پر دستک دیتے ۔(بخاری۔ ادب مفرد)
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی یہ حالت تھی کہ جب بارگاہِ رسالت میں گویا ہوتے تو اس قدر اپنی آواز کو دھیمی رکھتے گویا نہایت رازادانہ بات ہو اور اس قدر آہستہ عرض کرتے کہ پھر دہرانے کی خواہش کی جاتی ۔ وہ اس لئے تھا کہ بارگاہ رسالت میں ادنیٰ سی بے توجہی اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں اور تھوڑی سی بھی لاپرواہی ہو تو زندگی بھر کی پونجی ختم ہوجائے اور سارے اعمال حبط ہوجائیں۔ بناء بریں اسلاف نے نہایت تاکید سے حضور پاک ﷺ کی بارگاہ کے آداب و احترام کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کی ہے ۔ دربارِ رسالت ایسا مقام ہے جہاں دیوانگی و جنون نہیں کامل ہوش و استحضار درکار ہے ۔ ادنیٰ سی غلطی دنیا و آخرت میں حرمان نصیبی کا موجب ہے ۔
باخدا دیوانہ باشد و بامحمد(ﷺ ) ہوشیار