چین نے مسلمانوں کی جاسوسی کی ساری حدیں پار کردی۔ پڑھیے وہاں کی حکومت نے کیا کیا۔

چین کے صوبے سنکیانگ کے شمال مغربی علاقے میں چینی حکام مسلمانوں کی جاسوسی کے لیے ایک موبائل ایپ استعمال کررہے ہیں۔ یہ انکشاف انسانی حقوق ( ہیومن رائٹس) واچ کی ایک رپورٹ سے ہوا ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک عالمی گروپ ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ کے شمال مغربی علاقے میں چینی حکام مسلمانوں کی جاسوسی کے لیے ایک موبائل ایپ استعمال کر رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس خصوصی ایپ سے مسلمانوں کے متعلق تحقیقات اور انہیں پکڑنے کا کام لیا جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یہ موبائل ایپ عام لوگوں کے بارے میں وسیع تر معلومات اکھٹا کرتا ہے۔ جس میں ان کے خون کا گروپ، قد و قامت، یہاں تک کہ مذہبی ماحول اور سیاسی خیالات کے بارے میں بھی ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔ایپ لوگوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرتا ہے جس کے لیے ان کے فون، موٹر سائیکل یا کار اور شناختی کارڈ پر نظر رکھی جاتی ہے اور کسی بھی قسم کے مشکوک رویے کو نوٹ کیا جاتا ہے۔ جیسے کیا زیر نگرانی شخص اپنے پڑوسیوں سے تعلقات رکھتا ہے یا نہیں یا وہ ضرورت سے زیادہ بجلی کا استعمال کر رہا ہے، یا اس کا میل جول کس طرح کے افراد سے ہے۔ وغیرہ۔ہیومن رائٹس واچ سے منسلک چین میں تعینات تحقیق کار مایا وانگ کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں پولیس لوگوں کے قانونی حقوق کے بارے میں غیر قانونی طریقے سے معلومات اکٹھے کر کے، اسے ان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد یغور اور دوسری مقامی نسلی اقلیتیں آباد ہیں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔چین کو حالیہ عرصے میں تقریبا دس لاکھ مسلمانوں کو خصوصی حراستی سینٹرز میں رکھنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد عالمی برادری کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق خصوصی حراستی مراکز میں اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ چین ان الزام سے انکار کرتا ہے اور اس کا کہنا کہ وہ اصلاحی مراکز ہیں۔ 

دیکھیں ویڈیو http://urdu.news18.com/news/international/china-is-using-mobile-to-spy-on-muslims-mgb-270079.html