چیف منسٹر کا فضائی سروے

دیکھ لیجئے جو دیکھا نہیں
زندگی کا بھروسہ نہیں
چیف منسٹر کا فضائی سروے
چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے تلنگانہ میں حالیہ بارش کی تباہ کاریوں کا جائزہ اور معائنہ کرتے ہوئے متاثرین کی امداد کے لئے تیز تر اقدامات کا بروقت فیصلہ کیا ہے۔ ان کے دورہ سے متاثرین کو ایک حوصلہ ملے گا ۔ کریمنگر میں ڈیم کی تعمیر میں کنٹراکٹرس کی تساہلی سے کئی مواضعات کو شدید نقصانات سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ چیف منسٹر نے یہاں ڈیم کی تعمیر کے ایک حصہ کو منسوخ کرکے دوبارہ ٹنڈرس طلب کرنے کی ہدایت دی ۔ کریمنگر میں بادل پھٹ پڑنے سے شدید بارش کی وجہ سے ڈیم کا بڑا حصہ بہہ گیا۔ چیف منسٹر نے اس ڈیم کی تعمیر میں کنٹراکٹر کی غلطی کا اندازہ کیا ہے، انھوں نے مقامی عوام سے معذرت خواہی بھی کی کہ ڈبل بیڈروم کے مکانات فراہم کرنے کے وعدہ کے بعد بھی بے گھر عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ تلنگانہ میں اس مرتبہ کی بارش سے چیف منسٹر نے بظاہر خوشی کا اظہار کیا کیوں کہ گزشتہ دو سال سے خشک سالی کی زد میں آنے والے اضلاع میں اچھی بارش اور ذخائر آب کے لبریز ہونے سے زراعت کی پیداوار میں اضافہ ہوگا ۔حکومت کو خشک سالی سے نمٹنے کیلئے جن منصوبوں پر عمل کرنے کی ضرورت تھی اب بارش کی وجہ سے حکومت کا بوجھ کم ہوگیا ہے ۔ بارش نے ایک طرف ریاست تلنگانہ کے لئے پانی کا مسئلہ حل کردیا ہے تو دوسری طرف کئی وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے ۔ ریاست کا محکمہ ہیلت اس قدر چوکس و چوکنا نہیں ہے کہ وہ اچانک بھوٹ پڑنے والی وباؤ پر قابو پاسکے یا متاثرین کی بروقت امداد کرسکے ۔ لہذا چیف منسٹر کو بارش کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے ۔ حیدرآباد کے فیور ہاسپٹل میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے تشویش میں اضافہ ہوتا ہے کہ ریاست وبائی بخار کی لپیٹ میں ہے ۔ اگرچیکہ وزیر صحت لکشما ریڈی نے دواخانوں کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا ہے مگر ڈاکٹروں نے شہریوں سے بھی خواہش کی ہے کہ وہ پانی پینے اور سڑک کے کنارے والی ٹھیلہ بنڈیوں سے کھانا کھانے سے احتیاط کریں۔ ضلع ورنگل میں بخار کی وباء نے سنگین صورتحال پیدا کردی ہے ۔ دیہی علاقوں کے دواخانوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھ کر یہاں فوری ڈاکٹروں اور نیم طبی عملہ کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ڈینگو کے کیس بھی سامنے آئے ہیں۔ دماغی بخار یا جاپانی بخار کی وباء بھی عوام کو پریشان کررہی ہے ۔وبائی امراض سے متاثرہ افراد کے علاج کیلئے فوری ہیلت کیمپس کا انعقاد اور صفائی کیلئے موثر اقدامات کئے جانے چاہئے ۔ سیلاب کی و جہ سے ریاست میں کئی افراد بے روزگار بھی ہوئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں یا ورکشاپ میں کام کرنے والے تقریباً 3500 افراد اپنے روزگار سے محروم ہوئے ۔ شہر حیدرآباد میں کئی نشیبی علاقوں میں کام کرنے والے تقریباً 10,000 چھوٹی یونٹوں میں پانی داخل ہوجانے کے بعد یہ اسمال اسکیل انڈسٹریز یا یونٹس بند ہوگئے ہیں۔ ان اسمال انڈسٹریز کو ہونے والے نقصان کو دور کرنے کیلئے وہ حکومت کے بہبودی اقدام و امدادی کوشش کی محتاج ہیں۔ بارش نے ایک طرف ان چھوٹی صنعتوں کو نقصان سے دوچار کردیا ہے تو دوسری طرف غریب اور سلم بستیوں میں رہنے والوں کے مکانات منہدم ہوئے ہیں یا کہیں جزوی نقصان ہوا ہے ۔ انھیں اس نقصان سے باہرنکالنے کیلئے حکومت نے کسی امداد کا اعلان نہیں کیا ۔ سیلاب کے پانی کے جمع ہونے اور آب گیر علاقوں میں ناجائز قبضوں کو برخواست کرنے کیلئے چیف منسٹر نے 28000 غیرمجاز تعمیرات کو منہدم کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان غیرمجاز تعمیرات کے انہدام کی زد میں زیادہ تر متوسط یا غریب طبقہ کے لوگ ہی آرہے ہیں جبکہ ان ناجائز قبضہ کردہ علاقوں کو فروخت کرنے والے لینڈ گرابرس اور مکانات کی تعمیر کیلئے رشوت لے کر اجازت دینے والے بلدی حکام آسانی سے بچ نکل رہے ہیں ۔ چیف منسٹر نے جہاں 28ہزار عمارتوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا ہے وہیں وہ بلدیہ کے رشوت خور عہدیداروں کو برطرف کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس سے تمام محکموں کو ایک مضبوط سگنل ملے گا کہ وہ اپنی حکومت میں کسی قسم کی رشوت خوری اور غیرمجاز کارروائیوں کو ہرگز پسند نہیں کرتے ۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہیکہ بلدیہ کے بدعنوان عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ معطلی کا حکم دیا جاتا ہے بعد ازاں یہ لوگ بھی رشوت دے کر اپنی ملازمت بحال کرلینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ شہر اور ٹاؤنس میں بلدیہ کارول ہی آبادیوں کو گنجان اور آفات کے حالات میں شدید نقصان دہ بناتا ہے ۔ تعمیرات کا شعبہ ، محکمہ صحت ، محکمہ آبپاشی یا اور دیگر محکموں میں ہونے والی بدعنوانیوں کی وجہ سے ہی عوام الناس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے جس دیانتداری کے ساتھ بارش کے نقصانات کا جائزہ لیا ہے اس جذبہ کے ساتھ خرابیوں کو ختم کرنے کے لئے سخت قدم اُٹھانا چاہئے ۔