چڑیا کا بچہ

بلقیس اورفاطمہ دو بہنیں تھیں ، ابھی دونوں ننھی منی تھیں ۔ ایک دن کی بات ہے دونوں صحن میں کھیل رہیں تھیں ۔ اچانک چڑیا کا ایک بچہ صحن میں آگرا ۔ فاطمہ نے دوڑ کر پکڑا لیا ۔ بولی ، میں تو اس کے پیر میں دھاگہ باندھوں گی ، پھر دھاگہ پکڑ کر خوب اُڑاؤں گی ۔ اتنے میں بہت سے چڑیاں اکٹھی ہوگئیں ۔ چوں چوں چلانے لگیں ۔
بچہ فاطمہ کے ہاتھ میں چپ سادھے کانپ رہا تھا ۔ بلقیس نے دیکھا دوڑی ہوئی آئی بولی ۔ چھی چھی تم بے چاری کو تنگ کر رہی ہو ! دیکھو اس کی ماں چوں چوں کررہی ہے ۔ یہ وہی چڑیا ہے جس نے ہماری چھت میں گھونسلہ بنایا تھا ۔ ننھے منے تھے اُڑنا جانتے نہ تھے ۔ اب اس کی امی اُڑنا سکھارہی ہیں تو تم پیر میں دھاگہ باندھو گی ۔ اس کی بھی تو ہماری طرح جان ہے ۔ تمہارے پیر میں اگر رسی باندھ کر کھینچا تو کتنا دکھ ہوگا اور امی تمہارے لئے کتنی بے چین ہوںگی ۔ میری سنو! اسے چھوڑ دو فاطمہ نہ مانی ، بلقس کے سمجھانے پر بھی وہ اڑی رہی ۔ بلقیس نے صحن کی دیوار سے لگاکر ایک چارپائی کھڑی کی فاطمہ کے ہاتھ سے بچہ چھین لیا ۔ چار پائی کی مدد سے اوپر چڑھ گئی اور بچے کو دیوار پر رکھ آئی ۔ چڑیوں نے چوں چوں کرنا بند کردیا ۔ اپنے منے کو پھر سے اُڑالے گئیں ۔ فاطمہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئیں ۔ بچو !ہم دوسرے کی مدد کریں ۔