پی ڈی پی کے اعتماد میں کمی آنے کی وجہہ سے ریاست میں ایک او رجمہوری طاقت کمزور پڑ گئی ہے

بی جے پی نے جس عجلت میں محبوبہ مفتی کے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا‘ وہ حقیقت میں چوکنا دینے والا تھا۔ اسکے بعد سے پارٹی کے جو بیان سامنے آرہے ہیں اور مرکزی حکومت نے جو فیصلے لئے ہیں وہ اسبا ت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا جلد ہی کوئی حل نکلنا والا نہیں ہے۔

محبوبہ مفتی او روادی کی سیاسی پارٹیو ں کے تئیں بی جے پی نے جو اپناکڑا رخ اختیار کئے ہوئے ہے وہ بتاتا ہے کہ حکومت کو سخت فوجی کاروائی پر ہی بھروسہ ہے۔

جس طرح مارے گئے دہشت گردوں تعداد بتائی جارہی ہے ‘ اس سے یہ لگتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی اسے اگلے عام انتخابات کا موضوع بنانے کی تیارکرچکی ہے۔ مگر سچائی یہ ہے کہ سختی کی حد کا اندازہ نئی دہلی کو بہت پہلے ہی لگ چکا تھااو راسی پتہ تھا کہ ایک وقت کے بعد یہ بے مطلب ہوجاتا ہے۔

وادی میں دہشت گردوں کے گراف میں اتارچڑھاؤ یہی بتاتا ہے کہ اس میں کمی بات چیت اورجمہوری طریقے سے ہی آسکتی ہے ۔ لیکن دقعت یہ ہے کہ گٹھ جوڑ ختم ہونے سے پی ڈی پی کا ٹوٹ چکا ہے او رریاست میں ایک اور جمہوری طاقت کمزور پڑگئی ہے۔

کشمیر مسلئے کو سلجھانے میں نئی دہلی کی ناکامی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ او رنہ ہی کوئی ایک پارٹی اس کے لئے ذمہ داراہے۔

اس معاملے میں مکمل ریاست کوناکام ماننا چاہئے۔ کشمیرمیں معاملے میں ہم گھوم پھر کا وہیںآجاتے ہیں جہاں1953میں شیخ عبداللہ کی گرفتار ی کے وقت ہوا تھا۔ اس کے بعد سے جموں او رکشمیر میں ایسی حکومتیں ہی برسراقتدار ائی ہیں جو ریاست کی عوام کابھروسہ جیتنے میں پوری طرح ناکام رہی ہیں۔

کشمیر کے دہشت گردوں کی 90کے دہے میں گرفتاری کے بعد سے حکومت کی مکمل توجہہ تشدد کوقابو کرنے میں لگ گیا۔ لیکن ہمیں سمجھ لیناچاہئے کہ تشدد مقصد ہے بیماری نہیں ہے ۔ بیماری ہے کشمیر کی عوام میں بھروسے کی کمی اور نئی دہلی کے انصاف میں اس کا بھروسہ ختم ہوجانا ۔

شیخ عبداللہ کو جب1953میں ریاست کے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایاگیا تھا تو سوال وہی تھا جو آج ہے۔ ریاست کی سیاسی حالت کیاہے اوراس کو کس طرح کو ہوناچاہئے؟ملک کے مین اسٹریم میں کشمیر کاشامل ہونا بھی اسی پر منحصر کریگاکہ فرقہ پرستی نظریہ کا پورے ملک میں ذریعہ کیاہے۔

دراصل کشمیر پر آج چل رہی بحث غلط تاریخی حوالوں پر ہے۔ یہ ملک میں جاری اس پروپگنڈ ہ مہم کا حصہ ہے جو ہندوستان کی مثال کے خلاف جاتا ہے۔

کشمیرکی کہانی میں جواہر لال نہرو کھل نائیک نہیں بلکہ نائیک تھے۔ جنھوں نے مذہب کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کے وقت ایک مسلم اکثریت والی ریاست کو ہندوستان کاحصہ بنانے کا کرشمہ کردیکھایا۔