پیٹرک شناہن آج امریکہ کے نئے وزیردفاع کا عہدہ سنبھالیں گے

شام سے امریکی فوج کے مرحلہ وار انخلاء کی نگرانی اہم ذمہ داری

واشنگٹن ۔ 31 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) پیٹرک شناہن جو منگل کے روز امریکہ کے نئے وزیردفاع بن جائیں گے اور امریکی فوج کا چارج ایک ایسے وقت سنبھالیں گے جب حالات اطمینان بخش نہیں کہے جاسکتے۔ یاد رہیکہ شناہن قبل ازیں نائب وزیردفاع تھے تاہم جم میاٹس کے استعفیٰ کے بعد وہ ان کے جانشین بن رہے ہیں۔ میاٹس اور صدر ٹرمپ کے درمیان مختلف امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں اور شام سے امریکی فوج کے انخلاء کا جب ٹرمپ نے فیصلہ کرلیا تو یہ اختلافات ایک ایسے مرحلہ میں داخل ہوگئے جن کی پابجائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگئی۔ یہاں ایک بار پھر وہی بات کہنا پڑتی ہے کہ شناہن ایک ایسے وقت امریکی وزیردفاع کی اہم ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں جب امریکہ کی خارجہ پالیسی انتہائی غیریقینی ہوچکی ہے اور کب کس وقت کیا تبدیلی ہوجائے، اس کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا۔ ٹرمپ کے فیصلہ نے ان کے تمام حلیفوں اور قانون سازوں کوحیرت زدہ کردیا ہے۔ اب شناہن کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی ہیکہ وہ شام سے امریکی فوج کے انخلاء کو یقینی بنائیں تاہم شام سے امریکی فوج کو آہستہ آہستہ ہٹایا جائے گا یا یکمشت پوری فوج امریکہ روانہ کردی جائے گی، اس کا فیصلہ ٹرمپ ہی کریں گے۔ مزید برآں شناہن کو یہ بھی دیکھنا ہیکہ شام میں موجود کرد فوج کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے یا نہیں کیونکہ دولت اسلامیہ کے جہادیوں سے لڑنے کیلئے کرد فوج کو امریکی فوج کا زبردست تعاون حاصل ہے۔ دوسری طرف ترکی کرد YPG جنگجوؤں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے اور یہ عزم کر رکھا ہیکہ شمالی شام میں ان جنگجوؤں پر حملے کئے جائیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا ہیکہ شناہن کو اس نوعیت کے جغرافیائی ؍ سیاسی معاملات کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے لیکن دیگر تجربہ کار عہدیداروں کا خیال ہیکہ شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے ٹرمپ کے فیصلہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے شناہن بخوبی نمٹ سکتے ہیں۔ شناہن ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں ان تمام مراحل کے مشاہدے کیلئے پورے 18 ماہ کا وقت ملا۔ انہیں ہر مباحثہ اور اجلاس میں شرکت کا بھی موقع ملا اور انہوں نے جو کچھ بھی مشاہدہ کیا، اس کی رپورٹ وائیٹ ہاؤس کو بھی پیش کی۔ شناہن کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل جوبوسنیو نے یہ بات کہی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ 56 سالہ شناہن نے 30 سال بوئنگ میں گزارے جہاں وہ سینئر نائب صدر بھی بنے۔ میزائل کے دفاعی نظام پر بھی انہوں نے کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ انہیں 787 ڈریم لائنر پروگرام کا جنرل منیجر بھی بنایا گیا تھا۔