پیغامِ سیرت کو غیر مسلم برادرانِ وطن تک پہنچانا اہلِ اسلام کا اہم دینی فریضہ

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
نائب مفتی جامعہ نظامیہ

آج سے چودہ سو سال قبل مکہ کی سنگلاخ وادی میں علم و حکمت اور تہذیب و تمدن سے ناآشنا قوم میں ایک ایسی کرشماتی ہستی کی ولادت باسعادت ہوئی، جس نے ساری دنیا کو علم و حکمت سے آراستہ کیا، بلند پایہ تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی، اخلاق و کردار کے اعلی جوہر سکھائے، حیات انسانی کے رازہائے سربستہ کو آشکار کیا، دنیا کو حکمرانی و جہان بانی کا سلیقہ سکھایا، بین الاقوامی اصول و قوانین کی بنیاد رکھی اور عدل و انصاف کے پیمانے مقرر کئے۔ احترام آدمیت، رواداری، وسعت نظری اور بقائے باہم کی عمدہ مثال قائم کی۔ اس ذات اقدس میں ایسے کمالات و فضائل پوشیدہ تھے، جس نے دنیا سے کٹے ہوئے علاقہ میں رہ کر تاقیامت ہونے والے احوال و واقعات کو بیان کیا۔ معاشرت اور طرز زندگی کے ایسے انمول نقوش چھوڑے کہ کائنات اس کا متبادل فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

جس نے دنیا کو امن عالم اور بقائے باہم کا ایسا سبق پڑھایا کہ امن کے علمبرداروں کے پاس اس سے بہتر کوئی ضابطہ نہیں۔ جس ذات اقدس کی ساری زندگی معجزات و کرشمات سے لبریز ہے، جن کی صورت چودہویں کے چاند سے زیادہ روشن، جن کی سیرت سورج سے زیادہ درخشاں، جن کی گفتار شہد سے زیادہ شیریں، جن کے اخلاق شبنم سے زیادہ نرم، جن کی داد و دہش باد صر صر سے زیادہ تیز، جن کی ملنساری، خندہ پیشانی اور وسعت نظری کے سامنے زمین کی وسعتیں تنگ، جن کی بلند خیالی اور فکری پرواز کے سامنے ساتوں آسمان کوتاہ، جن کی عزیمت، بلند حوصلگی اور ثبات قدمی سے بلند قامت پہاڑ شرمندہ اور جن کے نور سے سارا جہاں تابندہ۔ اس ذات اقدس کے نورانی چہرے اور جمال نبوت کو جس کسی نے دیکھا، وہ دل و جاں سے ان پر فدا ہو گیا۔ اسی ذات بابرکت کی صحبت بافیض میں رہنے والے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے کسی زلف والی ذات کو سرخ (دھاری دار) جوڑے میں آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا‘‘۔
(ترمذی، شمائل، صفحہ:۵)

ایک اور شرف زیارت سے مشرف ہونے والے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے آپ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا، ایسا لگتا تھا کہ سورج اپنے چہرے کے ساتھ متحرک ہے۔ جب آپ مسکراتے تو دیواریں کھل اٹھتی تھیں‘‘۔

(القسطلانی المواہب، جلد۴، صفحہ۱۳)
دس سال آپﷺ کی خدمت بابرکت میں رہنے والے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کا بدن چاندی کا بنا ہوا ہے‘‘۔

(الوفاء۲:۴۰۶)
اس ذات بابرکت میں فطری طورپر اخلاقی اوصاف و محاسن جمع تھے۔ خالق فطرت نے اوصاف و کمالات اور انسانی اعلی خوبیوں پر آپﷺ کی تخلیق فرمائی تھی۔ چنانچہ وہ مقدس ہستی خود اپنی فطری خوبیوں سے متعلق گویا ہے کہ ’’اللہ تعالی نے میری بہترین تربیت فرمائی ہے‘‘۔
(الشفاء، صفحہ۴۶، حاشیہ۲۹)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت منقول ہے کہ ’’میں نے دس سال آپﷺ کی خدمت کی، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ اپنے کسی ہم مجلس سے دور ہوکر (امتیازاً) بیٹھے ہوں، یا کسی مصافحہ کرنے والے سے آپ نے پہلے ہاتھ کھینچا ہو، تاآنکہ وہ خود ہی ہاتھ نہ کھینچ لیتا، یا کسی شخص نے آپ سے کھڑے ہوکر گفتگو کرنا چاہی ہو اور آپ پہلے اس سے پھر گئے ہوں، تاآنکہ وہ خود نہ پھر جاتا، یا کسی نے (سرگوشی کے لئے) اپنا سر آپ کے قریب کیا ہو اور آپ نے اپنا سر اس کے اپنے سر کو ہٹانے سے پہلے ہٹایا ہو‘‘۔ ایک دوسری روایت ان ہی سے منقول ہے کہ ’’آپﷺ نہ تو برا بھلا کہنے والے تھے، نہ فحش گو اور نہ لعن طعن کرنے والے۔ جب کسی کو عتاب کرنا ہوتا تو فرماتے ’’اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘۔ (ابن سعد، طبقات۱:۳۸۲)
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا جو آپ کی پہلی زوجہ مطہرہ ہیں، جنھیں ۲۵سال آپ کی رفاقت میں رہنے کا شرف حاصل رہا اور جن کی حیات تک آپﷺ نے کوئی دوسرا عقد نہیں فرمایا، بیان کرتی ہیں کہ ’’آپﷺ صلہ رحمی کرنے والے، مقروض کا بوجھ اٹھانے والے، محتاج کو کماکر دینے والے، مہمان نوازی کرنے والے اور مصائب میں لوگوں کے مددگار تھے‘‘۔ (بخاری، کتاب بدؤالوحی)

آپﷺ کی ایک اور زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا، جنھیں تقریباً دس سال تک آپ کے اخلاق حسنہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، وہ بیان کرتی ہیں کہ ’’آپ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عمدہ اخلاق والے تھے۔ آپ نہ تو (قصداً) فحش گوئی کرتے (اور نہ بلاقصد)، نہ بازاروں میں شور و غوغا کرتے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے لیتے، بلکہ آپ معاف کرنے والے اور درگزر کرنے والے تھے‘‘۔ (ترمذی شمائل)

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ جو آپ کے چچازاد بھائی اور بچپن سے آپﷺ کی کفالت و آغوش تربیت میں رہنے کا شرف پانے والے ہیں، آپﷺ کے اخلاق حسنہ کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں: ’’آپ خندہ جبیں، نرم خو اور طبعاً مہربان تھے۔ آپ سخت مزاج اور تنگ دل قطعاً نہ تھے۔ کوئی برا اور فحش لفظ زبان سے نہ نکالتے، کسی کی عیب جوئی اور بدگوئی نہ کرتے۔ جو آپ کو پسند نہ ہوتا، اس سے منہ پھیر لیتے (عیب نہ لگاتے)۔ آپﷺ نے اپنے نفس کو تین باتوں یعنی فضول جھگڑے، تکبر اور بے معنی گفتگو سے الگ کر رکھا تھا۔ دوسروں کی بات آپ تین باتوں یعنی کسی کی مذمت کرنے، عیب گیری اور تجسس سے اجتناب فرماتے اور وہی بات کہتے جو انجام کے اعتبار سے فائدہ مند ہوتی۔ لوگوں کے ساتھ مسکراتے اور تعجب کرنے میں شریک رہتے۔ مسافر اور اجنبی کی گفتگو اور سائل کے سوال کی درشتی کو نظرانداز کردیتے… آپﷺ کو صرف سچی تعریف پسند تھی، کسی کی بات کو درمیان سے کاٹنے سے گریز فرماتے‘‘۔
(ترمذی، شمائل، صفحہ۳۹۳،۳۹۴)

یہ ان حضرات کی گواہی تھی، جو آپﷺ کے جاں نثار تھے۔ آپﷺ پر جان و دل سے فدا تھے، مگر جو لوگ آپﷺ کے سخت ترین دشمن تھے، وہ بھی آپ کے بلند اخلاق کے مداح تھے۔ قیصر روم (ملک روم کے بادشاہ) نے آپﷺ سے متعلق حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے (قبول اسلام سے قبل) سوال کیا تھا کہ ’’کیا آپﷺ نے نبوت سے قبل کبھی جھوٹ کہا ہے؟‘‘ تو حضرت ابوسفیان نے جواب دیا تھا ’’نہیں‘‘۔ پھر اس نے پوچھا ’’کیا کبھی آپ نے کسی کو دھوکہ دیا؟‘‘۔ انھوں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘۔ (بخاری)

ایسی مبارک، پاکیزہ، بے داغ سیرت کی حامل ذات گرامی پر بہتان تراشی اور تہمت باندھنے کی آپﷺ کے عہد مبارک ہی سے باطل کوششیں کی گئیں، لیکن سورج سے زیادہ روشن و منور سیرت مبارکہ کی چمک دمک کے سامنے باطل کی ساری کارروائیاں معدوم ہو گئیں اور سارے الزامات حرف غلط کی طرح مٹ گئے۔ اس دور پرفتن میں بھی وقفہ وقفہ سے دشمنان دین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں بے ادبی و اہانت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ آپﷺ کی ذات اقدس سے متعلق رائے عامہ کی غلط فہمی کا شکار بنانے کے لئے جان توڑ کوشش کر رہے ہیں، لیکن انھیں اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیابی کی بجائے مزید ناکامی و نامرادی حاصل ہو رہی ہے۔ وہ غلط پروپیگنڈا تو کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت کو چھپا نہیں سکتے۔ جب حقیقت آشکار ہوتی ہے تو غلط فہمی اور ناپاک پروپیگنڈے کے ساری تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ کفار و مشرکین نے عرب کے مشہور زمانہ شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک خطیر رقم حوالے کی اور مطالبہ کیا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ہجو کریں۔ چنانچہ وہ ایک ٹیلے پر کھڑے ہو گئے، تاکہ وہاں سے آپﷺ کا گزر ہو تو آپﷺ کے اندر موجود خامیوں اور عیوب کو بیان کرسکیں۔ کچھ وقفہ کے بعد اخلاق و کردار کے پیکر، نورانی چہرہ والے اس عظیم ہستی کا گزر ہوا، جن کے چہرۂ اقدس کو دیکھ کر حضرت حسان بن ثابت مبہوت ہو گئے۔ کفار و مشرکین کو ان کی رقم واپس کردی اور آپﷺ کی مدح و ثناء کرتے ہوئے گویا ہوئے:

لمارأیت انوارہ سطعت
وضعت بین خیفتی کفی علی بصری
ترجمہ:۔ جب میں نے ان کے روشن انوار کو دیکھا تو میں نے اس کی تابناکی کے سبب مارے خوف کے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔
خوفا علی بصری من حسن صورتہ
فلست انظرہ الاعلی قدری
تاکہ ان کے حسن صورت سے میری بصارت متاثر نہ ہو۔ میں ان کو دیکھ نہ سکا، مگر میری حسب استطاعت۔

روح من النور فی جسم من القمر
کحلیۃ نسجت من الانجم الزھر
گویا نور کی روح چاند کے جسم میں ہو اور اس ہار کے مانند جس کو روشن ستاروں سے ڈھالا گیا ہو۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے اعتراف حقیقت کے ان جذبات پر کفار و مشرکین شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ ’’ہم نے تو اس کے لئے تم کو نہیں بھیجا تھا‘‘۔

آج بھی فتنہ پرور اور شرپسند عناصر آپﷺ سے متعلق پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم آپﷺ کی روشن سیرت کو ساری دنیا پر ظاہر کریں، خصوصیت کے ساتھ غیر مسلمین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کرنا، موجودہ تقاضوں کا حل سیرت کی روشنی میں پیش کرنا اور عالمی سطح پر سیرت نبویﷺ کی اشاعت کی تحریک کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے، تاکہ باطل کا منہ توڑ جواب دے سکیں اور سادہ لوح عوام پر حقیقت کو آشکار کرسکیں کہ وہ باطل کے مکروفریب میں پھنس کر کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔