پیشگی رقم دیکر مابقی رقم نہیں دینا

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کرایہ دار کی اراضی جملہ ۲۶ مربع گز ہے ہے، بکر اور خالد مالکان اراضی ہیں۔ زید ، بکر اور خالد کے درمیان زبانی معاہدہ بضمن فروختگی اراضی یہ طئے پایا کہ زید کامل رقم اراضی بیس لاکھ اٹھائیس ہزار روپیہ یکمشت ادا کرتے ہوئے فوری رجسٹری کروالے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور زید جملہ رقم کے منجملہ سولہ لاکھ ادا کرتے ہوئے ہنوز بقایا رقم نہ ادا کرتے ہوئے طویل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ اس طویل مدت میں مالکان اراضی کی جانب سے بارہا توجہ دلائی گئی لیکن کوئی پیشرفت زید (کرایہ دار) کی جانب سے نہ ہوسکی۔ نفس مقدمہ یہ ہے کہ ان طویل سات سالوں میں اراضی مذکور کی قیمت فی مربع گز چھ ہزار روپیہ سے تجاوز کرچکی ہے ۔ مزید برآں اس طویل مدت کے درمیان زید کی جانب سے اراضی متذکرہ کا کرایہ بھی وصول طلب ہے ۔ من و عن معاملت تحریر کردی گئی۔ اب التماس ہے کہ اس سلسلہ میں وہ کونسی صورت ہوگی جو ہر دو فریق کے لئے باعث طمانیت ہوسکے ۔ مالکان اراضی کے لئے نقصان کا باعث نہ ہو۔
جواب : انعقاد بیع کے دو رکن ہیں ، ایک ایجاب و قبول دوسرے تعاطی (یعنی مشتری کی جانب سے حسب معاہدہ کل یا بعض ثمن کی ادائی اور بیع پر قبضہ) کیونکہ عقد بیع میں بعض ثمن (قیمت) نقد اور بعض ثمن ادھار بھی ہوسکتی ہے ۔ جب یہ دونوں پائے جائیں تو بیع منعقد ہوجاتی ہے ۔ مذکورہ عقد بیع کے بعد مشتری (خریدار) ثمن کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو حق حبس (قبضہ) باطل ہوجاتا ہے ۔ عالمگیری جلد ۳ کتاب البیوع میں ہے … واما رکنہ فنوعان الایجاب والقبول والثانی التعاطی وھوالاخذ والا عطاء کذا فی محیط السرخسی۔ اسی کتاب کے صفحہ ۱۵ میں ہے: قال اصحا بنا رحمھم اللہ تعالیٰ للبائع حق الحبس لاستسیفاء الثمن اذا کان حالاً کذا فی المحیط وان کان مؤجلا فلیس للبائع أن یجس البیع قبل حلول الاجل ولا بعدہ کذا فی المبسوط ولو کان بعض الثمن حالاً و بعضہ مؤجلا فلہ حبسہ حتی یستو فی الحال ولو بقی من الثمن شئی قلیل کان لہ حبس جمیع المبیع کذا فی الذخیرۃ۔
پس صورتِ مسئول عنہا میں بائع بکر اور خالد مشتری زید کے درمیان ایجاب و قبول اور تعاطی پایا گیا ہے اس لئے بیع منعقد ہوگئی اب مشتری زید پر مذکورہ در سوال مابقی رقم واجب الادا ء ہے ۔ البتہ مابقی رقم کی عدم ادائیگی کی بناء بحیثیت کرایہ دار مبیع پر قبضہ کالعدم قرار پائے گا۔ اس طرح زید کا قبضہ ملکیت کی بناء نہیں بلکہ کرایہ دار کی حیثیت سے متصور ہوگا اور زید پر مابقی رقم ادا نہ کرنے کی بناء ملکیت مذکورہ کا کرایہ بھی واجب الادا ہوگا ۔ زید اگر اب بھی مابقی رقم ادا نہ کرے تو بکر اور خالد کو مبیع پر قبضہ کرلینے کا اختیار ہے۔ یہاں تک کہ وہ مابقی رقم ادا کردے۔ اس صورت میں (یعنی مابقی رقم مشتری ادا نہ کرے) تو حق حبس یعنی قبضہ کا حق مشتری سے ختم ہوجاتا ہے ۔ اسی کتاب کے صفحہ۱۶ میں ہے: ولو اخرالثمن بعد العقد بطل حق الحبس ۔ فقط واﷲأعلم