پٹرولیم اشیا پر اکسائز ڈیوٹی

مرکزی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے سلسلہ میں عوام کی جیب کو ہلکا کرنے کا سلسلہ ہی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نے یہ واضح انکار کردیا کہ پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ مرکزی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ابھی صورتحال ایسی نہیں ہوئی ہے کہ حکومت ٹیکس یا اکسائز ڈیوٹی میں کمی کرنے پر غور کرسکے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ذریعہ عوام کی جیبوں پر روزآنہ کی اساس پر خاموشی سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور اس کی کسی کو خبر تک نہیں ہو رہی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جو عوام روزآنہ اپنی محنت کی کمائی سے اپنی گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل ڈلواتے ہیں اب تو انہیں خود بھی اس فیول کی قیمتوں کا اندازہ ہی نہیں رہ گیا ہے اور نہ ہی یومیہ اساس پر ہونے والے اضافہ کی سمت ان کی توجہ ہے ۔ حکومت نے انتہائی خاموشی کے ساتھ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور یہ اب پوری کامیابی سے جاری ہے ۔ یہ ایسی ترکیب رہی ہے جس کے ذریعہ مہنگائی کی مار کھانے والے عوام کو حکومت کی چالاکی کی خبر تک نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ جو اپوزیشن جماعتیں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج کرتی تھیں یا زبانی بیان بازی کیا کرتی تھیں اب ان کی خود بھی توجہ اس جانب نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ مرکزی حکومت نے عوام اور سیاسی جماعتوں کے اطراف حالات کا ایسا جال بن دیا ہے جس کے تحت سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہوگئی ہے اور کوئی بھی ملک کے عوام کے تعلق سے غور و فکر کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ملک میں سب سے پہلے تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھیں اور حکومت ان پر مہنگائی کے دور میں سبسڈی دیتے ہوئے عوام کا کچھ بوجھ خود برداشت کرتی تھی ۔ اس کے بعد ان قیمتوںکو بین الاقوامی مارکٹ سے جوڑ دیا گیا تھا اور ہر پندرہ دن میں ان قیمتوں پر نظرثانی ہوا کرتی تھی ۔ ہر پندرہ دن بعد بھی ہونے والے اضافہ پر عوام بے چینی محسوس کرتے اور اپوزیشن جماعتیں تنقید کرتیں تھیں۔ اسی لئے حکومت نے ان قیمتوں پر یومیہ اساس پر نظرثانی شروع کروادی ۔یہ ترکیب حکومت کیلئے انتہائی کارگر ثابت ہوئی ہے ۔

چند ماہ قبل جب یومیہ اساس پر پٹرول کی قیمتوں کے تعین کاسلسلہ شروع ہوا تھا اس وقت سے اب تک پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر چھ روپئے کا اضافہ انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہوگیا ہے اور عوام کو اس کی خبر تک نہیں ہو پا رہی ہے ۔ اسی طرح ڈیزل کی قیمت میں تقریبا چار روپئے فی لیٹر کا اضافہ کردیا گیا ہے اور اس کا بھی کوئی احساس کرنے کے موقف میں نہیں رہ گیا ہے ۔ یہ در اصل تجارتی ہتھکنڈہ تھا جسے مودی حکومت نے اختیار کیا اور عوام کو خبر ہوئے بغیر ہی ان کی جیبوں کو خالی کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اب یہ سلسلہ چند ماہ سے رائج ہے اور عوام خاموشی سے اس لوٹ کھسوٹ کو برداشت کر رہے ہیں اور اس پر انہیںکوئی احساس بھی نہیںرہ گیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس مسئلہ پر ایسا لگتا ہے کہ صورتحال کو قبول کرلیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں اب پٹرول کی قیمتوں پر روزآنہ تو بیان دینے یا احتجاج کرنے سے رہیں۔ اس طرح اس محاذ پر حکومت کو تنقیدوں سے بچتے ہوئے اپنا کام کرجانے کا موقع مل گیا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ اب حکومت تیل کمپنیوں کا خسارہ پورا کرچکی ہے اس کے بعد وہ نفع کمانے لگی ہیںاور عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کو ختم کرنے یا کم کرنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ حکومت اپنے محاصل اور ٹیکس میں کمی کرتے ہوئے عوام کو راحت دینے پر سوچ بھی نہیں رہی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مالیہ کو متاثر نہیں کرسکتی چاہے اس کیلئے عوام کے مالیہ پر کتنا ہی بوجھ کیوں عائد نہ ہوجائے ۔ یہ حکومت کی بے حسی ہے جو وہ عمدا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اختیار کر رہی ہے ۔

جس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں فی بیاریل 100 ڈالرس سے اوپر چلی گئی تھیں اس وقت بھی پٹرول تقریبا اسی قیمت پر دستیاب تھا جتنی قیمت پر آج دستیاب ہو رہا ہے جبکہ عالمی مارکٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کافی گراوٹ آئی ہے اور یہ 60 ڈالرس فی بیاریل کے آس پاس چل رہی ہیں۔ وقتی طور پر ان میں اتار چڑھاو آتا رہتا ہے اور یہ مارکٹ کی حقیقت ہے ۔ لیکن جس وقت عالمی مارکٹ میں قیمتیںنصف تک پہونچ گئی تھیں اس وقت بھی حکومت نے عوام کا بوجھ کم کرنے کی بجائے اپنے خزانے بھرنے کی فکر کی تھی اور اب بھی وہ اسی طریقہ کو اختیار کئے ہوئے ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ اس معاملہ میں وہ عوام کی حالت کو پیش نظر رکھے اور مارکٹ کی قیمتوں سے اندرون ملک قیمتوں کو مربوط کرنے کے بعد ٹیکس اور اکسائز ڈھانچہ میں تبدیلیاںلائے تاکہ جو عوام مہنگائی کی مار برداشت کرر ہے ہیں انہیں قدرے راحت بھی فراہم کی جاسکے۔