پوری نماز صرف چند کلمات پر مشتمل ہے

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

(گزشتہ کا تسلسل) ہم مذہبوں کے مابین اتحاد کے تقاضوں پر بہت زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں (کیونکہ ایسا ہونا عین فطری ہے) بھائی چارہ کے فروغ کے لئے نئے روابط تخلیق کئے جانے چاہئیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں کی مثال بھی دیکھنی چاہئے، مثلاً جب اقوام متحدہ کا اجلاس ہوتا ہے تو اس میں شریک ملازمین اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس زبان میں چاہیں بات نہیں کرسکتے، بلکہ اظہار خیال کرنے والے کو ان زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا، جو ادارہ نے سرکاری طورپر منظور کی ہیں، یعنی انگریزی، فرانسیسی یا دوسری زبانیں۔ ان کے تراجم کا بھی انتظام ہے، جو مخصوص زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ کسی کو بھی اس نظام پر اعتراض نہیں اور اجتماعی مفاد کے لئے مخصوص مفاد قربان کردیا جاتا ہے۔

مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے، جو کم اہم نہیں۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترجمہ کبھی بھی اصل کا نعم البدل نہیں ہوسکتا اور اس حوالے سے ایک مثال یہ ہے کہ آج قرآن مجید کے انگریزی (اور دیگر زبانوں) میں ان گنت تراجم موجود ہیں، مگر پھر بھی ان ہی زبانوں سے زیادہ بہتر تراجم کے لئے مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں اور آئے دن نئے نئے تراجم منصۂ شہود پر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے نقائص سے پاک مواد تو اصل ہی ہوسکتا ہے نہ کہ اس کا ترجمہ۔ اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آج عملاً اسلام کے سوا کوئی مذہب نہیں، جس کی بنیاد بننے والا کلام الہی یعنی وحی اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔ مسیحیوں، یہودیوں، پارسیوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں تک ان کے مذہب کی جو تعلیمات پہنچی ہیں، وہ تراجم کی شکل میں ہیں یا پھر اصل کے محض چند حصے ہیں، جب کہ اس لحاظ سے مسلمان بہت خوش نصیب ہیں کہ ان کے پاس قرآن مجید اپنی اصل زبان اور شکل میں محفوظ ہے۔

قرآن کی ایک اور خصوصیت بھی ہے کہ اگرچہ قرآن نثر میں ہے، مگر اس میں شاعری کی تمام خصوصیات اور خوبصورتی موجود ہے، غنائیت، قافیہ بندی اور پرتاثیر انداز بیان وغیرہ۔ اس طرح کہ متن میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی سے اس کے معانی میں اس طرح ردوبدل ہو جاتا ہے کہ جیسے ایک لفظ کے آگے پیچھے کرنے سے شعر کی بنت خراب ہو جاتی ہے۔ راقم الحروف کو کچھ عرصہ قبل ایک تجربہ ہوا کہ ایک فرانسی نومسلم نے جو پیشہ کے اعتبار سے موسیقار تھے، مجھے بڑے یقین سے کہا کہ ’’قرآن کی سورۃ ۱۱۰ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی حصہ چھوٹ گیا ہے، کیونکہ یہ اس طرح پڑھا جاتا ہے ’’فی دین اللہ افواجاo فسبح…‘‘ جو موسیقی کے حوالے سے ناممکن ہے‘‘۔ اس موقع پر قرآن کی تلاوت کے بارے میں جو تھوڑا بہت علم میرے پاس ہے، وہ میرے کام آیا اور میں نے اسے یہ بتاکر مطمئن کردیا کہ نہیں، اس کی صحیح تلاوت اس طرح ہے ’’فی دین اللہ افواجاوفسبح…‘‘ (اس میں ف اور واؤ کو ملاکر افواجا کی نون کے بعد ہلکی سی آواز واؤ کی دے کر فسبح کی ف تلاوت کی جاتی ہے) اس پر نومسلم بھائی کے دل سے جیسے بوجھ اتر گیا اور اس نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کی وضاحت سے اس میں موسیقی کے نقطہ نظر سے کچھ بھی قابل اعتراض نہیں رہا‘‘۔ قرآن کی نثر کا موازنہ شاعری سے بخوبی کیا جاسکتا ہے اور اگر ایسا کیا جائے تو کوئی کیسے ایک مکمل، جامع اور موزوں ترین لفظ کی جگہ کم تر درجہ کا کوئی لفظ ڈالے گا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری نماز صرف چند کلمات پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے اذان ہے، پھر تکبیر اور اس کے بعد نماز کے دوران پڑھے جانے والے کلمات ہیں۔ اللہ اکبر، فاتحہ، سبحان ربی العظیم، دو آیات، سبحان ربی الاعلی، تشہد کی دعاء اور بس۔ یہ سب کچھ کاغذ کے ایک صفحہ میں سمویا جاسکتا ہے۔ عام طورپر ان کلمات کے معانی ہر مسلمان کو ازبر ہوتے ہیں، حتی کہ ایک بچہ کو بھی یاد کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اگر ان کلمات کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو پھر مسلمان کی نماز کلمات کی تفہیم کے بغیر ایک مشینی انداز کی تلاوت اور اُٹھک بیٹھک ہی نہیں رہ جاتی۔ ذاتی طورپر راقم بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی بھی مسلمان قرآن کے ترجمہ کو وہ مقام، مرتبہ اور احترام نہیں دے گا، جو اصل عربی زبان میں قرآن کو حاصل ہے، کیونکہ ترجمہ تو بہرحال کسی انسان کا کیا ہوا ہوگا، جب کہ اصل قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے کلام کی شکل میں نازل ہوا اور لافانی ذات نے جس کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان طالب علم اس بات پر اصرار کئے جا رہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ کوئی کہتا ہے (دعاء کرتا ہے) اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا دعاء مانگ رہا ہے۔ جب اس پر تمام دلائل بے اثر ثابت ہوئے تو راقم نے کہا ’’اگر تم وعدہ کرو کہ روزانہ پانچ نمازیں اپنی مادری زبان میں ادا کروگے تو میں تم کو اس کی اجازت دیتا ہوں‘‘۔ اس پر اس نے بحث ادھوری چھوڑدی اور پھر دوبارہ میرے پاس نہیں آیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز کو محض ایک علاقائی رسم بنانے پر مصر لوگ بھی اسے معمول بنانے پر تیار نہیں اور بیشتر کی باتیں بحث برائے بحث کا درجہ رکھتی ہیں۔ مسلمان کو کسی ایسے شخص سے جو سرے سے اسلام پر ایمان ہی نہیں رکھتا یا اس پر عمل پیرا نہیں، مشورہ لینے کی ضرورت نہیں۔

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس اجماع امت سے اتفاق کیا ہے کہ ’’معمول کے حالات میں نماز میں کلمات عربی میں ہی ادا کئے جانے چاہئیں۔ حالات کے مطابق مستثنیات تو بہرحال موجود ہیں، مثلًا یہ کہ کسی نومسلم کو قبول اسلام کے بعد نماز کی ادائیگی کے لئے ضروری کلمات یاد کرنے میں کچھ وقت لگے گا اور اس دوران وہ کلمات جس زبان کی اسے تفہیم ہے اس میں ادا کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی مثال موجود ہے، جنھوں نے اپنے کچھ نومسلم ہم وطنوں کے لئے سورہ فاتحہ کا فارسی ترجمہ بھجوایا تھا، جس کے لئے انھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت حاصل کی تھی (النہایہ حاشیہ الہدایہ) اور وہ نومسلم اس اجازت سے اس وقت تک استفادہ کرتے رہے، جب تک وہ عربی زبان میں مانوس نہیں ہو گئے۔ اس طرح نومسلم ابتدائی طورپر چند گھنٹوں یا چند روز کے لئے نماز کی ادائیگی اپنی زبان میں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ نماز کسی دوسری زبان میں ادا کرنے کے کچھ فوائد ہیں اور کچھ نقصانات ہیں، مگر یہی صورت حال علاقائی زبان (مادری زبان) میں نماز ادا کرنے کی بھی ہے۔ اگر کوئی اور دلیل کارگر نہیں ہوتی تو نفع اور نقصان کا موازنہ کرلیا جائے اور ان میں سے جو کمتر برائی ہے وہ قبول کرلی جائے۔ (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)