پنچکولہ کا تشدد ‘ حکومت کی ناکامی

دیکھو عزت سے اگر شہر میں کٹ جائے وسیمؔ
چور ہیں گھر کے نگہبان یہ دیکھا تم نے
پنچکولہ کا تشدد ‘ حکومت کی ناکامی
پنچکولہ میں ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ بابا گرمیت رام رحیم سنگھ کو عصمت ریزی کے مقدمہ میں خاطی قرار دئے جانے کے بعد جو تشدد پھوٹ پڑا ہے وہ توقعات سے زیادہ تو ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ تشدد توقعات کے مطابق ہی ہوا ہے ۔ اس کے اندیشے پہلے سے ہی ظاہر کئے جا رہے تھے اور یہ حالات بھی بتا رہے تھے کہ تشدد ہونے والا ہے اگر بابا رام رحیم کوسزا سنائی جاتی ہے ۔ عدالت نے بابا گرمیت سنگھ رام رحیم کو خاطی تو قرار دیدیا ہے لیکن سزا کا اعلان پیر کو ہوگا ۔ جس وقت سے یہ اشارے ملنے لگے تھے کہ عدالت کا فیصلہ گرمیت سنگھ کے خلاف ہوسکتا ہے اسی وقت سے یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جار ہے تھے کہ یہاں بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑے گا ۔ بابا رام رحیم کے آشرم میں پٹرول اور ڈیزل کا ذخیرہ کیا جا رہا تھا ۔ تیز دھاری ہتھیار اور پتھر جمع کئے جار ہے تھے ۔ بابا کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں چاہنے والے اور بھکت وہاں جمع ہونے لگے تھے ۔ وہ راتوں میں سونے کی بجائے آشرم کے اطراف پہرہ دینے میں مصروف تھے ۔ انہیں کسی پل سکون نہ تھا اور یہ سب کچھ ایسی تبدیلیاں تھیں جن سے ریاستی اور مرکزی دونوں انتظامیہ پوری طرح واقف تھے ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کیلئے مرکزی حکومت نے بیس ہزار سے زائد سکیوریٹی اہلکار پنچکولہ کو روانہ کردئے تھے ۔ پھر ریاست کی پولیس الگ سے تھی ۔ اس کے باوجود وہاں جس قدر بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہریانہ کی منوہر لال کھتر کی حکومت حالات اور تشدد پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔ حکومت کی اسی ناکامی کے نتیجہ میں بے شمار افراد اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ مالی نقصان الگ سے ہوا ہے جس کی پابجائی اور بھرپائی آسان نظر نہیں آتی ۔ ریاستی حکومت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ریاستی حکومت سے اس مسئلہ پر جواب طلب کرے ۔ مرکز نے اپنی جانب سے سینکڑوں کمپنیاں نیم فوجی دستوں کی روانہ کردی تھیں۔ ہریانہ میں کرفیو نافد کردیا گیا تھا اس کے باوجود تشدد کو روکا نہیں جاسکا ہے ۔ اتنی بھاری تعداد میں مرکزی دستوں کی موجودگی بے سود ثابت ہوئی ہے ۔
یہ سب کچھ منوہر لال کھتر حکومت کی لا پرواہی اور ناکامی کانتیجہ ہے ۔ فیصلے کے دو دن قبل سے ہی یہاں کشیدگی پیدا ہونی شروع ہوگئی تھی ۔ ہتھیار جمع کئے جا رہے تھے ۔ پٹرول اور ڈیزل کا ذخیرہ کیا جا رہا تھا ۔ پتھر جمع کئے جا رہے تھے ۔ بابا کے بھکت ملک کے مختلف حصوں سے کئی طرح کی رکاوٹوں اور تحدیدات کے باوجود یہاں پہونچ رہے تھے ۔ منوہر لال کھتر کی حکومت نے ابتداء سے یہاں کوئی امتناعی احکام لاگو نہیں کئے ۔ لا اینڈ آرڈر کے بگڑنے کے اندیشوں پر صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا گیا اور عملی طور پر کوئی اقدامات حالات کو بگڑنے سے بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں کئے گئے ۔ ایک طرح سے بابا گرمیت سنگھ کے بھکتوں کو جو چاہے کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ۔ لا اینڈ آرڈر کی برقراری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجہ میں یہ صورتحال پیدا ہوگئی کہ سارا پنچکولہ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگیا ۔ بے شمار سرکاری گاڑیوںاور املاک کو نقصان پہونچا ۔ درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ۔ سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے ۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پر تشدد کارروائیوں ‘ آتشزنی اور دیگر خلاف قانون واقعات کی حالیہ وقتوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ یہ صرف حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے ۔ عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد بابا راحم رحیم کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور ان کی سزا کا اعلان پیر کو کیا جائیگا ۔ اس طرح پنچکولہ میں حالات کے مزید بگڑنے کے اندیشے بھی برقرار ہیں اور اس کے اثرات پڑوسی ریاستوں میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ تشدد مزید پھیل سکتا ہے اور اس کے اثرات اور بھی سنگین ہوسکتے ہیں۔
حکومت ہریانہ کی جانب سے اگر ابتداء سے سخت موقف اختیار کیا جاتا اور قانون کی بالادستی اور لا اینڈ آرڈر کی برقراری کو ابتداء سے یقینی بنایا جاتا تو اس تشدد اور اس کے نقصانات پر قابو پایا جاسکتا تھا ۔ مرکزی نیم فوجی دستوں کی دو ہزار کمپنیاں ریاستی حکومت کو دستیاب تھیں ۔مزید نیم فوجی دستوں کی آمد میں کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ ساری ریاست کی پولیس موجود تھی ۔ پڑوسی ریاستوں سے بھی مدد حاصل کی جاسکتی تھی لیکن حکومت نے خاموش تماشائی بنے رہنے کو ترجیح دی جس کے نقصانات آج سارے ملک کے سامنے ہیں۔ یہ تشدد دوسری ریاستوں تک بھی پھیل رہا ہے اور اطراف و اکناف کے شہر اس کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ حکومت کو اس سارے واقعہ اور بڑے پیمانے پر تشدد کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے فوری حرکت میں آنا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو بھی غیر جانبداری سے کام کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے جواب طلب کرنا چاہئے ۔