پسماندہ طبقات سے مودی کی ہمدردی

وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے ائے زندگی لاؤں کہاں سے
پسماندہ طبقات سے مودی کی ہمدردی
انتخابی ماحول میں سیاستدانوں کی جانب سے دوسروںکو تنقیدوں کا نشانہ بنانا اور اپنے آپ کی تعریف کرنا معمول کی بات ہے تاہم جو سیاسی قائدین اہم دستوری اور باوقار عہدوں پر فائز رہتے ہیں انہیںاس روایت سے گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں اپنے عہدے کے وقار کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے تاہم ہندوستان میں حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ دستوری عہدوں پر فائز ہیں وہی لوگ زیادہ تر اقدار اور روایات کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جھوٹے دکھاوے کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ تازہ مثال وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے ۔ وزیر اعظم نے راجستھان کے ضلع الور میںتقریر کرتے ہوئے مرکز کی اپنی حکومت اور راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کی بجائے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنانے پر زیادہ توجہ دی ہے ۔ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ کانگریس نے مسلسل پسماندہ طبقات کو نظر اندازکردیا تھا اور انہیں محض ووٹ بینک سمجھا گیا ہے ۔ جہاں تک پسماندہ طبقات کو نظر انداز کرنے کی بات ہے تو حالیہ وقتوں میں پسماندہ طبقات اور دلتوں کے ساتھ جو مظالم کے واقعات پیش آئے ہیں وہ اکثر و بیشتر ان ریاستوں میںپیش آئے ہیں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے ۔ خود راجستھان کے الور ہی میں دلتوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا تھا اور وسندھرا راجے حکومت خاطیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ برسر اقتدار بی جے پی سے تعلق رکھنے والے کارکن ہی اس طرح کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں اور انہوں نے سر عام اس کا اقبال بھی کیا ہے ۔اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اب وزیر اعظم مودی کانگریس اور دوسری اپوزیشن کو تنقیدوںکا نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔راجستھان میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جہاں پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ انہیں بے عزت کیا گیا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔ ان واقعات میں بی جے پی کے ارکان اسمبلی تک بھی ملوث رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی ہی کی نریندر مودی حکومت ہی میں ملک میںپسماندہ طبقات پر مظالم کے قانون میں نرمی پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ پسماندہ طبقات کیلئے یہ قانون انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ وہ اس کے ذریعہ اپنی ہتک کرنے والوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع ہوتے ہیں اورا نہیں قرار واقعی سزائیں دلائی جاسکتی ہیں لیکن بی جے پی جو ہمیشہ ہی دلتوں کو استعمال کرتی رہی ہے اور انہیں بعد میں نظر انداز کردیا گیا ہے ہمیشہ ہی اعلی ذات والوں کی وکالت کرتی رہی ہے ۔ اب بھی بی جے پی دلتوں سے محض انتخابات کے موقع پر دکھاوے کی ہمدردی کرتے ہوئے انہیں استعمال کرنا چاہتی ہے جبکہ اس کے اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے قائدین خود پسماندہ طبقات کے تحفظ سے متعلق قانون میں نرمی پیدا کرنے کیلئے شدت سے مہم چلا رہے ہیں۔ بی جے پی کی ایسی کوششوں کے خلاف خود مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بھی خبردار کیا تھا جن کا تقریبا سارا کا سارا ووٹ بینک پسماندہ طبقات اور دلتوں پر ہی مشتمل ہے ۔ اترپردیش ‘ راجستھان ’ مدھیہ پردیش اور دوسری ریاستوںمیں بی جے پی کے اعلی ذات کے قائدین نے کھلے عام اعلانات کئے ہیں کہ اگر اس قانون کو ختم نہیں کیا گیا تو بی جے پی کو اعلی ذات والوں کی برہمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود وزیر اعظم دلتوں کو گمراہ کرنے ان سے ظاہری ہمدردی میں جٹ گئے ہیں۔
ملک کے طول و عرض میں کئی مقامات پر ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو انتہائی شرمناک بھی کہے جاسکتے ہیں۔ دلت لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزیاں تک کی گئیں۔ انہیں زندہ جلایا گیا ۔ نوجوانوں کو مار پیٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا اس کے باوجود بی جے پی کی حکومتیں خاموش رہیںاور کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کی حکومتوں کو ایسے واقعات کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے بھی کوئی ہدایت نہیںدی ۔ اب جبکہ راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور دوسری ریاستوں میں انتخابات کا موسم ہے اور پسماندہ طبقات کے ووٹ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں تو مودی ان طبقات کو رجھانے اور گمراہ کرنے میںمصروف ہیں۔ ملک کے عوام کو یہ دوہرے معیارات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔