پردہ کا اسلامی نظریہ اور ہمارا معاشرہ

مولانا محبوب عالم اشرفی
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل پوری دنیا فتنہ و فساد میں گرفتار تھی۔ بے حیائی و بے پردگی، عریانیت و فحاشی عام تھی۔ عورتیں صرف نفسانی خواہشات کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ لڑکیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں۔ صنف نازک کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اسلام نے زمانۂ جاہلیت کے تمام تر غیر فطری و غیر انسانی رسم و رواج کو یکسر بدل کر ایک مہذب اور پاکیزہ معاشرہ عطا کیا اور سماج کی تمام برائیوں کا قلع قمع کردیا۔ اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے، جس نے عورتوں کے حالات میں بہتری لائی اور سوسائٹی میں عزت و عظمت، تہذیب و تمدن، عدل و مساوات کا درجہ دے کر ایک پاکیزہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ انہیں عصمت و عفت اور شرم و حیاء کے زیور سے آراستہ کرکے علم و عمل کا پیکر بنایا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں قیامِ امن کے لئے جوپہلی تدبیر اختیار کی، وہ یہ ہے کہ انسانی جذبات کو ہمہ قسم کے ہیجان و میلان سے بچاتے ہوئے مردوزن میں پائی جانے والی فطری و غیر فطری کشش و میلان کی ضابطہ بندی کی۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو چیز قابل انتفاع ہوتی ہے، اسے پردے میں رکھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر اسے بے پردہ چھوڑ دیا جائے تو بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جب آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں تو انصاف سے بتائیے کہ اگر ایک حسین و جمیل جوان خاتون اپنے حسن اور زیبائش کے ساتھ بے حجاب لوگوں کے سامنے آئے گی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرے گی تو ہوس پرست لوگوں کی بدنظری کا شکار ہوگی یا نہیں؟۔ اللہ تعالیٰ سورۂ نور میں ارشاد فرماتا ہے: ’’میرے حبیب! مسلمان مردوں کو حکم دو کے اپنی نگاہیںکچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے، بے شک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت اور اپنا بناؤ سنگھار (غیروں) کو نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں‘‘۔

اسی طرح سورۂ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر کا حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں‘‘۔ مذکورہ آیات میں مردوں کو اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں کو اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے سے روکا گیا اور اعلان عام فرمایا گیا کہ اپنی زیب و زینت اور بناؤ سنگھار غیر مردوں پر ہرگز نہ ظاہر کریں، کیونکہ یہ فتنہ کا موجب ہے۔

چنانچہ حضور نبی کریمﷺ کی زوجہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ وہ اور آپﷺ کی دوسری زوجہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کے پاس آئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم دونوں پردے میں چلی جاؤ‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’یارسوللہ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟‘‘۔ تب رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔ (سنن ترمذی) یہ حدیث پاک مسلم خواتین کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا شخص سے بھی پردہ کا حکم فرمایا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر زمانے کی عورتوں میں زیب و زینت، بناؤ سنگھار اور بننے سنورنے کا مزاج رہا ہے اور ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت نظر آئے۔ اسلام نے عورتوں کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، البتہ زیب و زینت کے اظہار پر پابندی ضرور عائد کی ہے۔ اسلام نے مسلم عورتوں کو پردے کا پابند بنایا، تاکہ وہ با حیاء، پارسا اور صالحہ بنیں اور غیر محرموں و ہوس پرست لوگوں کی بدنگاہی سے بچ کر اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں۔ مسلم خواتین اگر بناؤ سنگھار کریں تو ان کا بننا سنورنا اور زیب و زینت سے آراستہ ہونا صرف اور صرف ان کے اپنے شوہروں کے لئے ہونا چاہئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ نے فرمایاکہ خواتین اپنی زیبائش صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں‘‘ اور عورتوں کے ان محارم کا ذکر کیا ہے، جن پر زیبائش کو ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اس زیب وزینت سے مراد زیورات وغیرہ ہیں، جب کہ عورتوں کو اپنا بال اپنے شوہروں کے سوا کسی اور کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں۔

عہد حاضر میں مسلم عورتیں عریاں لباس زیب تن کر کے بن ٹھن کر بازاروں، شادی بیاہ کی محفلوں اور گلی کوچوں میں پھرا کرتی ہیں اور اپنے حسن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب عورتیں عطر (پھیلنے والی خوشبو) لگا کر کسی محفل سے گزرتی ہیں تو وہ ایسی ایسی ہیں جیسے زانیہ‘‘۔ مغربی دنیا میں عورتوں کی بے پردگی اور آزادنہ مرد و زن کے اختلاط نے جن منفی نتائج کو جنم دیا ہے، وہ کسی انصاف پسند شخص سے پوشیدہ نہیں، تاہم افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں، جو اسلامی قانون کے مطابق عورتوں کے باپردہ رہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پردہ اسلام میں ضروری نہیں، کیونکہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے، عورتیں بیمار ہوجاتی ہیں، انہیں صاف شفاف تازہ ہوا نہیں ملتی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ ہے، جو حقائق سے بعید ہے۔ پردہ کے اسلامی احکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ روی، عریانیت، فحاشی، بے حیائی اور شہوانی فتنوں سے بچانا چاہتا ہے اور مسلم خواتین کو پردے میں رہ کرگھریلو معاملات میں دلچسپی رکھنے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے اخلاق و کردار سنوارنے کی تلقین کرتا ہے اور آزادانہ جاہلی زمانے کی عورتوں کی طرح گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے سے روک کر گھر کی ملکہ بنے رہنے کو ترجیح دیتا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبروکی حفاظت ہو سکے اورہوس پرست لوگوں کی فتنہ انگیزی سے محفوظ رہ سکیں۔

ہماری ماؤں اور بہنوں کو خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔ حضرت سیدہ فاطمہ کے اندر یہ وصف جمیل خاص طور پر تھا کہ آپ پردے کی سخت پابند اور شرم و حیاء کا مجسمہ تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ ’’عورتوں کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ غیر مرد ان کو دیکھے‘‘۔ آپ کی شرم و حیاء کا لحاظ خداوند قدوس کو بھی ہے، چنانچہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پردے سے ندا دے گا اے حشر کے میدان میں جمع ہونے والو! اپنی نگاہیں نیچی کرلو، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ بنت محمدﷺ ستر ہزار حوروں کے ساتھ بجلی کی طرح گزر جائیںگی‘‘۔

آج ہماری ماؤں اور بہنوں میں بے شمار سماجی و اخلاقی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں، بے حجابی اور بے حیائی کو فیشن تصور کیا جانے لگا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے اخلاقی اقدار پامال ہورہے ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال نوجوان لڑکے و لڑکیوں کو جنسی بے راہ روی کا شکار بنا رہا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں انگریزی تعلیم کے مثبت نتائج کی بجائے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلم بچیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور اپنا دین و ایمان ہوس پرستی کے ہاتھوں فروخت کرکے مرتد ہورہی ہیں (العیاذ باللہ) اس طرح ارتداد کا تناسب دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ والدین اپنے بچے اور بچیوں کی تربیت اسلامی انداز سے نہیں کرتے اور ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اگر ماں باپ اپنی اولاد کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں تو معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اگر معاشرے کے اچھے لوگ اصلاح و فلاح کے لئے سامنے آجائیں تو یقین ہے کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے پاک ہوجائے گا، بگڑا ہوا ماحول سدھرجائے گا اور غلط روی و بد عملی کا سد باب ہوجائے گا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں دینی حمیت پیدا ہوگی، اسلامی شعور بیدار ہوگا اور خدا کے بندے احکام خدا وندی کے پابندہوجائیں گے۔