پرائیوسی پر ڈاکہ

حیدرآباد۔ دنیامیں کہیں بھی قائم جمہوری نظام حکومت چیک اینڈ بلینس کے اصولوں پر کام کرتا ہے ۔ مواخدہ اور احتساب سے بے خوف ہوکر بے لگام اختیارات کے ساھت کام کرنے والی حکومتیں اور ان کے زیرانتظام ادارے دھیرے دھیرے مافیاکی شکل لے لیتے ہیں۔ پھر جمہوریت گھر کی باندی اور نظام انصاف ان کا غلام بن جاتا ہے جنہیں انگلیوں کے اشارے پر نچایا جاسکتا ہے ۔

طبقہ اشرافیہ تو اپنی بقاء کے لئے مقدور بھر جدوجہد کرسکتا ہے مگر ان حالات میں عوام چوپایہ بن جاتے ہیں۔

ایسا چوپایہ جو اپنے مالک کی مرضی کی تابع ہوتا ہے ۔ بے شعودی او ربے تمیزی اس کے خمیرمیں رچ بس جاتی ہے۔

آزادی ’ پرائیوسی‘ بنیادی حقوق او رانسانی حقوق جیسی خوش نما باتیں ان کے لئے اپنی معنویت کھودیتی ہیں۔ ہندوستان جنت نشان کے موجودہ سیاسی او رحکومتی منظر نامے کچھ ایسے ہی حالات بد کے اشارے دے رہے ہیں ۔

اگر بروقت ان کا سدباب نہیں کیاگیا تو آنے والے دنوں میں اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔ مرکزی حکومت نے نیشنل سکیورٹی کے نام پر قانون نافذ کرنے والی دس ایجنسیوں کو طاقت بے مہار سونپ دی ہے او راب یہ ایجنسیاں بلاخوف وتردد عام انسان کی جاسوسی کرنے کے لئے آزاد ہوگئی ہیں۔

وزرات داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق انٹیلی جنس بیورو ‘ نارکوٹکس کنٹرول بیورو‘ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ‘ سنٹرل بورٹ آف ڈائرکٹر ٹیکس‘ سنٹر بیورو آف انوسٹی گیشن ‘ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ‘ کابینہ سکریٹریٹ( را)‘ ڈائرکٹریٹ آف سنگل اینڈ انٹیلی جنس ( جموں کشمیر‘ شمال مشرق او رآسام کیلے) او ردہلی کے کمشنر آف پولیس کسی بھی شخص کے کمپیوٹر سے جنریٹ ‘ ٹرانسمٹ یا ریسویر یا اس میں اسٹور کئے گئے کسی بھی دستاویز کو دیکھ سکیں گے۔یہ اختیارات ائی ٹی ایکٹ2000کی دفعہ 69کے تحت دیا گیا ہے۔

اعلامیہ میںیہ بھی کہاگیا ہے کہ اگر کوئی شخص یا ادارہ اس سے انکار کرتا ہے تو اس کو سات برس کی سزا ہوسکتی ہے۔مرکزی حکومت کے اس فیصلے کی حزب اختلاف بجا طور پر مخالفت کررہا ہے اور اسے تاناشاہی قرار دے رہا ہے۔

کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اس فیصلے کو ملک میں پولیس راج قائم کرنا جیسا بتاتے ہوئے وزیر اعظم کو غیرمحفوظ تاناشاہ قراردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان اب ایک پولیس اسٹیٹ یعنی ایسا ملک بن گیا ہے جہاں تاناشاہی کا راج ہے او رجو پولیس او ردیگر ایجنسیوں کے ذریعہ عام شہریوں کی جاسوسی کراتی ہے۔

ترنمول کانگریس صدر چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی بھی اس قانون کے خلاف اپنی شعلہ بیانی نہیں پائیں اور اسے کالا قانون بتاتے ہوئے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم آزاد ملک کے شہری ہونے کے باوجود غلام بن گئے ہیں۔لوگوں سے ان کا جمہوری حق چھیننا جارہا ہے ۔

عوام کی پرائیویسی میں مداخلت کی جارہی ہے ۔ ممتا بنرجی نے اس خوف کا بھی اظہار کیاکہ حکومت اس قانون کو طلبا نوجوان طبقہ عام لوگوں مختلف نجی او رمذہبی اداروں کے خلاف استعمال کرسکتی ہے اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔حزب اختلاف کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کا یہ قانون سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ نے رواں سال ہی پرائیوسی کوبنیادی حق بتاتے ہوئے اس کو انسان کی عام زندگی کابنیادی حصہ تسلیم کیاتھا ۔ اس حکم کے بعد یہ صاف تھا کہ اگر حکومت کو کسی کی پرائیوسی کی نگرانی کرنی ہوگی تو اس کے لئے پارلیمنٹ کو الگ سے قانون بنانا ہوگا۔

لیکن حکومت نے ایسا کچھ نہ کرتے ہوئے اپنی ایجنسیوں کو اس فیصلے سے ایسی طاقت عطا کردی ہے کہ اب وہ کسی عدالت کے حکم کے بغیرجوابدہی کے کسی تصور سے بے بیاز ہوکر کسی بھی پرائیوسی پر ڈاکہ مارسکتے ہیں او رانہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

یہ سوال بجا طور پر کیاجارہا ہے کہ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے عین قبل جلد بازی میں ایساحکم جاری کرنے کی کون سی ضرورت آن پڑی تھی؟۔ ماسواجموں وکشمیر پورے ملک میں بالعموم امن قائم ہے ۔

چند ایک فرقہ وارانہ تصادم او رکسانوں کی تحریک کے سواکوئی ایسی بات سامنے نہیں ائی ہے جسے اس فیصلے کا جواز بنایا جاسکتا ہو؟ تو پھر آخر اسیا کیا ہوا کہ مودی حکومت نے تقریباہر ایجنسی کو اتنااہم اختیار دے دیا؟۔اس فیصلے کو اپوزیشن آسانی سے قبول نہیں کرسکتی ہے بلکہ یہ عام لوگوں کے لئے بھی آسانی سے قبول کیاجانے والا فیصلہ بھی نہیں ہے۔

حکومت بھلے ہی نیشنل سکیورٹی کی دہائی دے رہی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ خود حکومت اور اس کے وزرا پر بھی بھاری پڑسکتا ہے۔کسی بھی ملک میں قانون سازی ‘ فرد ‘ معاشرہ او رملک کے مفاد کودھیان میں رکھتے ہوئے ہوتی ہے ۔

بدلتی ہوئے حالات کے مطابق اس میں ترمیم کی گنجائش بھی رہتی ہے ۔ تاہم یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ان ترمیمات سے ملک کے تما م لوگ متفق ہوں۔

اس لئے قانون میں ترمیم پر اکثر اختلاف رائے اوراحتجاج ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر جس قانون سے عوام کے حقوق پر ڈاکہ پڑتاہوا سے کسی بھی طرح سے درست نہیں کہاجاسکتا ۔

اسلئے حکومت کو اپنے ایس فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ضرورت ہے کہ حکومت عوام کے پرائیوسی کے حق کااحترام کرے اورچیک اینڈ بیلنس کے اصولوں پر کام کرتے ہوئے اس معاملے میں درمیانی راہ نکالے ورنہ اگرآدھار کارڈ کی طرح یہ معاملہ بھی عدالت میں گیاتو ترقیات کے بلندبانگ او رکھوکھلے نعروں پر ٹکی اس حکومت کی زنبیل میں عین وقت رخصت رسوائی کے سوا کوئی چیز نہیں باقی رہے گی۔