پاکستان کی تنظیمیں

بڑی ناراضگی دیکھتے ہیں اب ان آنکھوں میں
جو کبھی ہمیں پیار سے دیکھا کرتی تھیں
پاکستان کی تنظیمیں
اقوام متحدہ نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے معاملہ میں پھر ایک بار پاکستان کی جانب مشکوک نگاہ ڈالی ہے۔ حفاظ سعید کو ایک دہشت گرد قرار دینے کے بعد اقوام متحدہ نے دیگر تنظیموں کو بھی دہشت گردی کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ پاکستان خود ان دہشت گرد تنظیموں سے لہولہان ہوتا رہا ہے۔ اس کے باوجود وہاں کی ذمہ داری حکومتوں نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہمیشہ پس و پیش کیا۔ ہر دہشت گرد حملوں کے بعد خاموشی اختیار کی کبھی حوصلہ نہیں دکھایا۔ غور نہیں کیا کہ پاکستانیوں کا مستقبل اسی ملک کے حصار میں ہے۔ اگر اندرون ملک دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے تو اس کا پتہ نہ چلانا بھی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت سمجھی جاتی ہے۔ اس کوتاہیوں اور ناکامیوں کا نوٹ لیتے ہوئے ہی عالمی ادارہ نے دہشت گردوں کی فہرست تیار کی۔ 139 پاکستانی شہریوں اور اداروں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے پاکستانی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا میں دہشت گرد گروپس کے حوصلے بلند کرنے میں مدد کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اس فہرست میں اسامہ بن لادن کے وارث ایمن الظواہری کا نام سرفہرست ہے۔ لشکرطیبہ اور دیگر تنظیموں کے ناموں کے بعد حکومت پاکستان اور عوام کو اپنے ملک میں امن و امان کی برقراری کیلئے ان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کی ذمہ داریوں سے راہ فراری کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کی سنگین خلاف ورزی بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اقوام متحدہ نے حافظ سعید جیسے شہریوں کو دہشت گرد قرار دیا اور انہیں پاکستان میں سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ممنوعہ تنظیموں کا پاکستان کی اصل دھارے کی سیاست میں کافی عمل دخل پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے بین الاقوامی تقاضے بھی ہیں اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر وہ دہشت گردوں پر شکنجہ کسنے کا عملی مظاہرہ کرے تو خود اس کی سرزمین لہولہان ہوتے رہنے سے بچ جائے گی۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی لشکرطیبہ کے لئے کام کرنے والی محاذی تنظیم ملی مسلم لیگ کو دہشت گرد گروپ میں شمار کیا ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان کو مطلوب داؤد ابراہیم کا نام بھی شامل ہے۔ پاکستان پر برسوں سے عالمی دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے صفایا کیلئے سخت اقدامات کرے لیکن عالمی برہمی کے باوجود اب لشکرطیبہ کے لیڈر حافظ سعید آنے والے پاکستانی انتخابات میں حصہ لینے کا منصوبہ بنارہے ہیں تو یہ ایک پاکستان کا سیاسی، سماجی اور سلامتی مسئلہ بن جائے گا۔ پاکستانی عوام اگر حافظ سعید کو اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں تو ایسے میں عالمی اداروں کا موقف کیا ہوگا۔ ایک جمہوری طرز کے انتخابات کے ذریعہ منتخب ہونے والوں کے تعلق سے عالمی ادارہ کی کیا رائے قائم ہوگی یہ غور طلب ہے۔ اس طرح کے حالات رونما ہونے سے قبل ہی حکومت پاکستان کو تاکید کی جاچکی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کے سیاسی عزائم کو کچلنے میں اہم رول ادا کرے۔ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں حافظ سعید کی تنظیمیں جیسے جماعت الدعوۃ شہری طبی اور ہنگامی راحت خدمات انجام دینے والی اول دستہ ادارہ ہے۔ پاکستان کی عوام اس طرح کی تنظیموں کے حامی ہیں اور ان کی جانب سے انجام دیئے جانے والے کاموں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام جن تنظیموں کو عالمی اداروں کی جاننب سے دہشت گرد قرار دیا گیا ہے انہیں اپنا مسیحا مانتے ہیں۔ پاکستان کا ہر نوجوان لشکرطیبہ کے حق میں دکھائی دے تو اس طرح کا جذبہ پیدا ہونے کی وجوہات کا پتہ چلانے میں حکومت کی ناکامی سے پھوٹ پڑنے والے خراب حالات ہی اس کے زوال کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگرچیکہ حکومت نے پاکستان کی سیاست میں داخل ہوئے دہشت گرد گروپس کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے متبادل اقدامات پر غور کرنا شروع کیا ہے لیکن گذشتہ ماہ میں ہائیکورٹ نے ملک کی انتخابی ایجنسی کو ہدایت دی تھی کہ وہ ملی مسلم لیگ کو سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹر کرلے۔ اس گروپ کی حافظ سعید سرپرستی کرتے ہیں۔ اگر چیکہ پاکستان کی سیاست میں اس طرح کے گروپس برسوں سے سرگرم ہیں مگر اب باقاعدہ طور پر وہ سیاسی سطح پر خود کو نمایاں کرنے جارہے ہیں تو آنے والے دنوں میں پاکستان کا سماجی، سیاسی ڈھانچہ کیا شکل اختیار کرے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔
وادی کشمیر میں امن ضروری
وادی کشمیر میں تازہ جھڑپوں اور سیکوریٹی کی صورتحال میں ابتری نے مقامی افراد کی عام زندگی بری طرح متاثر کردی ہے۔ گذشتہ دنوں سیکوریٹی فورسیس کی جانب سے اضلاع شوپیان اور اننت ناگ میں تلاشی مہم اور انسداد دہشت گرد کارروائیوں میں 13 عسکریت پسندوں، 3 شہریوں اور دیگر جوانوں کے بشمول 20 افراد کی ہلاکت کے بعد وادی میں بدامنی کی کیفیت بڑھ گئی۔ فوج نے دعویٰ کیا تھاکہ اس نے عسکریت پسندوں کے اعلیٰ قائدین کو ختم کردیا ہے اس سے بظاہر یہ دکھایا گیا کہ فوج نے انٹلیجنس کی اطلاع پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے پولیس اور سیکوریٹی فورس کے درمیان زمینی مشترکہ تیاری کے ساتھ تشدد کی اصل وجہ کو ختم کرنے پر توجہ دینے کی حکمت عملی طئے کی گئی تھی مگر اس حکمت عملی کے باوجود وادی کو بدامنی کی آگ میں جھونک دینے والے واقعات افسوسناک حد تک بڑھتے جارہے ہیں۔ مقامی نوجوانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا الٹا نتیجہ یہ نکل رہا ہیکہ یہ نوجوان اپنی ہی سرزمین پر فوج کے خلاف غم و غصہ رکھتے ہوئے تشدد پر اتر رہے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر وادی کی حالیہ وارداتوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ سال 2013ء میں افضل گرو کو پھانسی دینے کے بعد سے وادی جل اٹھی ہے جس کی اگ تھم نہیں پارہی تھی کہ 2016ء میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کا انکاؤنٹر جلتی پر تیل کا کام کردیا۔ وادی کے نوجوانوں میں دہشت گردی جیسی سوچ نہیں ہے لیکن خراب حالات کا سامنا کرنے والوں کیلئے جس طرح کی کارروائیاں کی جارہی ہیں اس سے وہ دلبرداشتہ ہوتے جارہے ہیں۔ سیکوریٹی فورسیس کے خلاف کشمیر کے گلی کوچوں اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے والوں میں اسکولی طلباء کے ساتھ مقامی جوان بھی شامل ہیں۔ سیکوریٹی فورس کے خلاف ان کی برہمی ایک خطرناک رجحان کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ وادی کو 1990ء سے تشدد کی آگ میں جھونک دینے والے واقعات میں کمی نہیں آئی ہے۔ ایک حساس ریاست کے اندر امن و امان کی برقراری کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ان کو پورا کرنے سے مرکز اور ریاستی حکومتیں قاصر نظر آتی ہیں بلکہ وہ بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔