پاکستان کو مزید اقدامات کرنے ہونگے

روح مٹی سے یا مٹی روح سے تنگ ہے
دونوں کے بیچ شاید سکون و امن کی جنگ ہے
پاکستان کو مزید اقدامات کرنے ہونگے
ہندوستان اور پاکستان کے مابین انتہائی خطرناک کشیدگی کے دوران پاکستان نے ہندوستان کے پائلٹ ونگ کمانڈر کو ابھینندن کو کل جمعہ کو رہا کردینے کا اعلان کیا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ اعلان قابل خیر مقدم ہے لیکن صرف یہ ایک اعلان یا اقدام دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے یا کشیدگی کو کم کرنے کا باعث نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان کا یہ اعلان محض ایک ابتدائی قدم ہوسکتا ہے لیکن اس کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو ایسے کئی اقدامات کرنے ہونگے جن کے ذریعہ دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جو اس کی سرزمین سے ہندوستان کے خلاف حملے کر رہے ہیں۔ ہندوستان کا امن درہم برہم کر رہے ہیںاور عام شہریوں اور ہماری سکیوریٹی فورسیس کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ان دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کرنے کیلئے پاکستان کو اقدامات کرنے ہونگے جن کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ ہندوستان کے خلاف کس طرح کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ان دہشت گردوں کو عالمی سطح پر مسترد کیا گیا ہے اور ان کو بلیک لسٹ بھی کردیا گیا ہے ۔ ان کے خلاف تحدیدات بھی عائد کردی گئی ہیں۔ ان کی نقل و حرکت کو مسدود کردیا گیا ہے ان کے بینک کھاتے اور فنڈز وغیرہ کو منجمد کردیا گیا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے ایسے اقدامات کے باوجود پاکستان انہیں اپنی سرزمین پر پناہ دئے ہوئے ہے ۔ انہیں پاکستان میں کھلی آزادی ملی ہوئی ہے ۔ وہ عوام میں تقاریر کرتے ہوئے نفرت پھیلاتے ہیں۔ مخالف ہند جذبات کو اشتعال دلایا جاتا ہے اور ان سے چندے بھی حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہ ساری سہولیات پاکستان میں ان دہشت گردوںکو اور ان کی تنظیموں کو اور نیٹ ورکس کو حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان بات چیت کیلئے تیار نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی دہشت گردوں کو سرپرستی اور تائید حاصل ہے اور جب تک یہ سرپرستی جاری رہے گی اس وقت تک بات چیت نہیں ہوسکتی اور اگر کوئی ملاقات ہو بھی جائے تو وہ ثمر آور نہیں ہوسکتی ۔
پاکستان جب تک دہشت گردی سے مقابلہ کے معاملہ میںاپنی سنجیدگی کا عملا مظاہرہ نہیں کرتا اس وقت تک اس کے قول و فعل پریقین نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اب بھی بے شمار عناصر ایسے ہیں جن پر حکومت کا راست کوئی کنٹرول دکھائی نہیںدیتا ۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اور اس کی قیادت بھی پاکستانی سیویلین قیادت کے کنٹرول میں نہیںدکھائی دیتی ۔ ان حالات میں اگر پاکستان کی حکومت کوئی وعدہ کرتی بھی ہے تب بھی اس کا یقین کرنا مشکل ہی ہوگا کیونکہ کئی ایسے عناصر ہیں جو صرف اور صرف ہندوستان دشمنی کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں اور ان عناصر کی سرکوبی کے بغیر دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی امید کرنا فضول ہی ہوگا ۔ ہندوستان نے پلواما حملے کے بعد سے عالمی سطح پر جس طرح سے اپنے موقف کو پیش کیا ہے اس کو بیشتر ممالک کی تائید و حمایت حاصل ہو رہی ہے ۔ کچھ ممالک یقینی طور پر دونوںملکوں کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی وکالت بھی کر رہے ہیںلیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر رہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ سے بات نہیں بن سکتی اور نہ ہندوستان بات چیت کیلئے تیار ہوسکتا ہے ۔ ماضی کے جو تجربات ہیں وہ ہندوستان کے موقف کو ساری دنیا کی نظر میں درست ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔
دونوںملکوںکے مابین فی الحال جو کشیدگی ہے وہ انتہائی خطرناک کہی جاسکتی ہے ۔ اگر ان حالات کی سنگینی کو پاکستان کی حکومت اب بھی نہیں سمجھ پاتی ہے تو پھر اس کیلئے مستقبل میں حالات کو قابو کرنا ممکن نہیںرہ جائیگا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان حالات کو اور ان کی سنگینی کو سمجھے ۔ ہندوستان کے جائز اور درست مطالبات پر عملی اقدامات کرے ۔پاکستان کی حکومت سیاسی عزم اور حوصلہ کے ساتھ آگے آئے ۔ صرف ایک پائلٹ کو رہا کردینا اس کیلئے کافی نہیںہوگا ۔ اسے حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی ۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو ختم کرنا ہوگا اور بہت سے اقدامات کرنے ہونگے ۔ تب ہی جاکر پاکستان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے اور ان سب کاموں کیلئے اس کے پاس وقت بھی کم ہی ہے ۔