پاکستان میں لڑکیو ں کے بارہ اسکول ایک ہی رات میں نذرآتش

شمالی پاکستان میں اکثر لڑکیو ں کے اسکولوں پر حملہ کئے جاتے ہیں
کراچی۔ پاکستان کے گلگت بلتستان علاقے نامعلوم لوگوں نے اپنے اشتراکی حملوں میں ایک ہی رات کے دوران لڑکیوں کے بارہ اسکول نذر آتش کردئے‘میڈیا رپورٹس کے مطابق مقامی لوگ جو تعلیم اداروں کی حفاظت کے لئے جدوجہد کررہے وہ تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کی جانب سے اکثر کئے جانے والے حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہر ہ کیا۔

گلگت سے 130کیلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ چیلاس ٹاؤن کے اسکولوں میں نصف شب کے دوران نامعلوم لوگوں نے نشانہ بنایا ‘ پولیس کے مطابق حملہ آورو ں نے ڈایامیر ضلع کے اطراف اکناف میں اسکول کی پراپرٹی کو بھی نقصان پہنچایا۔پولیس کے حوالے سے جیو نیوز نے خبر دی ہے کہ ’’ دواسکولوں میں دھماکے بھی کئے گئے ‘‘۔

حملے کے پیش نظر مقامی لوگوں نے صدیق اکبر چوک پر دھرنامنعقد کرتے ہوئے خاطیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور تعلیمی اداروں کے تحفظ کی مانگ کی جس پر اکثر دہشت گرد حملہ انجام دئے جاتے ہیں۔حملوں کی گرفتاری کے لئے پولیس نے علاقے میں تلاشی مہم شروع کردی ہے۔

ضلع انتظامیہ کے مطابق مذکورہ زیر تعمیر اسکولس لڑکیوں کے ہیں جن پر پاکستان کے شمالی علاقے میں اکثر حملے کئے جاتے ہیں۔

ڈسمبر 2011میں چیلاس میں کم اثر والے دھماکے کے ذریعہ کم سے کم دو لڑکی ں کے اسکول کو نقصان پہنچایاگیاتھا۔ اسی سال کی ابتداء میں نامعلوم لوگوں نے لڑکیوں کے دو اسکولوں میں آگ لگادی تھی۔

https://twitter.com/SherySyed_/status/1025283122772897792

سال2004میں بھی چیلاس کے اندر لڑکیوں کے اسکولس کو مسلسل نشانہ بنانے کے واقعات پیش ائے تھے۔

ماہ فبروری کے دوران جہاں نو میں سے اٹھ اسکول لڑکیوں کے اسکولس کو نشانہ بنایاگیا اور پانچ اسکول منہدم کردئے گئے تھے۔

دہشت گردوں نے خیبر پختون اور فیڈرل ایڈمنسٹریڈیٹ ٹرائبل علاقے( ایف اے ٹی اے) میں بھی تعلیمی اداروں میںآگ لگائی ہے۔

رپورٹس کے مطابق پچھلے دس سالوں میں قبائیلی علاقوں کے 15,000اسکولس تباہ کردئے گئے ہیں۔

سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی وکلات کرنے پر نوبل انعام یافتہ اور تعلیمی جہدکار ملالہ یوسف زائی کو بھی 2012میں طالبان نے اس لئے گولی ماری تھی ۔

سال2017ہیومن رائٹس واچ( ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ طالبان اور دیگر دہشت گردوں کے ایسے حملوں کی وجہہ سے پاکستان میں ہزاروں بچوں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں