پاکستان میں درگاہ حضرت لال شہباز قلندرؒ میں خودکش حملہ، 100ہلاک

صوفی رقص ’دھمال‘ کے دوران حملہ آور نے خود کو اُڑالیا، آئی ایس نے ذمہ داری قبول کی، راحت کاری اقدامات میں دشواریاں

کراچی 16 فروری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے صوبہ سندھ، سہوان ٹاؤن میں واقع درگاہ حضرت لال شہباز قلندر میں خودکش بم دھماکہ ہوا جس میں تقریباً 100افراد ہلاک اوردیگر کئی زخمی ہوگئے۔ ملک میں اندرون ایک ہفتہ یہ پانچواں دہشت گرد حملہ ہے۔ سینئر پولیس عہدیدار نے بتایا کہ خودکش بمبار درگاہ کے سنہرے باب الداخلہ سے داخل ہوا اور اُس وقت جبکہ یہاں روز مرہ کا صوفی رقص ’’دھمال‘‘ جاری تھا اُس نے خود کو دھماکہ سے اُڑالیا۔ خودکش بمبار نے پہلے گرینیڈ پھینکا جو پھٹ نہ سکا تھا۔ دھماکہ کے وقت درگاہ کے احاطہ میں عقیدت مندوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سہوان کے مطابق اُس نے پہلے عوام میں افراتفری پیدا کرنے کے لئے گرینیڈ پھینکا جس کے بعد خود کو دھماکہ سے اُڑالیا۔ ہاسپٹل کے ذرائع نے بتایا کہ یہاں تقریباً 100 نعشیں لائی گئیں اور کئی افراد زخمی ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے عہدیدار فیصل ایدھی نے بتایا کہ مہلوکین کی تعداد 100تک پہونچ گئی اور ہم نے کئی نعشوں کو اب تک حیدرآباد اور جام شرو میں واقع ہاسپٹلس منتقل کیا ہے۔ دہشت گرد گروپ آئی ایس نے اِس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ کمشنر حیدرآباد قاضی شاہد نے بتایا کہ یہ درگاہ دور دراز مقام پر واقع ہے جو حیدرآباد سے 130 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ایمبولینس اور گاڑیوں کے علاوہ میڈیکل ٹیموں کو مختلف شہروں سے روانہ کیا گیا ہے۔ تمام ہاسپٹلس میں ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا اور راحت کاری اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں۔ چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاکہ پاکستانی فوج سے خواہش کی گئی ہے کہ وہ مہلوکین اور زخمیوں کو منتقل کرنے کے لئے تاریکی میں پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹرس فراہم کرے۔ اُنھوں نے کہاکہ یہ انتہائی افسوسناک سانحہ ہے اور درگاہ شہر سے دور واقع ہونے کی وجہ سے راحت کاری اقدامات میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ابتدائی اطلاعات میں یہ کہا گیا ہے کہ خودکش حملہ اُس مقام پر ہوا جو درگاہ کے احاطہ میں خواتین کے لئے مختص ہے۔ راحت کاری عہدیداروں نے کہاکہ خاطر خواہ ایمبولنس کی عدم دستیابی کے سبب مہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہاں ہر جمعرات کو ’دھمال‘ اور دعائیہ پروگرام میں زائرین کی کثیر تعداد شریک ہوا کرتی ہے۔ ٹیلی ویژن چیانلس نے بتایا کہ درگاہ کے احاطہ میں مہلوکین اور زخمیوں کی نعشیں بکھری پڑی ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت ہوا جبکہ پاکستان نے اُن عناصر کو جو ملک میں امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہیں بے اثر کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایک دن قبل ہی یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال پر منعقدہ اِس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اُن عناصر کو جو ملک کے اندر یا باہر رہتے ہوئے دہشت گردی کا سبب بن رہے ہیں یا ایسی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اُن کا صفایا کردیا جائے اور امن و سلامتی کو خطرات بننے والوں کو بے اثر کیا جائے۔ دہشت گردوں نے جاریہ ہفتہ کے دوران لاہور، مہمند ایجنسی، پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گرد حملے کئے۔ پاکستان میں 2005 ء سے اب تک 25 سے زائد درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ سال 13 نومبر کو آئی ایس خودکش بمبار نے درگاہ حضرت شاہ نورانیؒ واقع بلوچستان میں بم حملہ کیا تھا جس میں 50 افراد ہلاک اور 100 زخمی ہوئے تھے۔ جولائی 2010 ء میں درگاہ حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ لاہور میں دو خودکش بمباروں نے حملہ کرتے ہوئے 50 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ اِسی طرح اکٹوبر 2010 ء میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کراچی میں خودکش حملہ ہوا جس میں 9 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سال اکٹوبر میں درگاہ حضرت بابا فرید شکر گنجؒ میں ہوئے حملہ میں 7 افراد ہلاک ہوئے تھے۔