پاکستان میں اقلیتی ووٹرس کا 30فیصد اضافہ مگر اب بھی وہ درکنار کئے جارہے ہیں

اسلام آباد۔پاکستان میں مذہبی اقلیتی ووٹرس میں2013کے2.7سے اب تک 3.63فیصد کااضافہ ہوا ہے اور یہ تیس فیصد بڑھے ہیں مگر ان پسماندہ طبقات کے زمینی حالات میں محض معمولی تبدیلی ائی ہے۔سیاسی مبصر یاسر لطیف نے مانا ہے کہ سیاسی نظام میں کوئی بھی مذکورہ اقلیتوں کو درکنار کرنے پر بحث نہیں کررہا ہے حالانکہ ان کا ملک کی کئے ایک حلقوں میں ان کا رول کافی اہمیت کا حامل بھی ہے۔

مسلسل ان کے مسائل کو نذر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ مشترکہ انتخابی نظام کا احیاء عمل میںآنے کے بعد ‘ ہندو شادی جیسے مسائل کو حل کرلیاگیا ہے۔ کئی سیاسی لیڈرس کہتے ہیں کہ نقصان علیحدہ انتخابی نظام کا نتیجہ ہے ‘ جس نے ان کی طبقات کو سرگرم سیاست سے دور رکھا ہے۔

ابتداء میں اس کو غیرمسلم اراکین پارلیمان اور اسمبلی کے ہاوز الیکشن کے ذریعہ منتخب کرتے ہوئے حل کیاگیاتھا۔

پھر ملٹری حکمران ضیاء الحق نے علیحدہ انتخابات کو متعارف کروایا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم دس اراکین اسمبلی کو راست الیکشن کے ذریعہ منتخب کرسکتے ہیں مگرجنرل اسمبلی یا پھر مسلم حلقے میں ووٹ نہیں ڈال سکتے۔

اقلیتی نمائندوں کے احتجاج کے بعد پرویز مشرف کے دوران مشترکہ الکٹورل دوبارہ متعارف کروایاگیا۔ اب غیرمسلمانوں کے لئے محفو ظ سیٹیں سیاسی پارٹیوں کے ان حلقوں کے درمیان تقسیم کی گئی جہاں پر کئی حلقوں میں وہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔

مگر لطیف اس بات پر زوردے رہے ہیں کہ یہ نظام موثر نمائندگی اور سیاسی اثررسوخ پر اثر انداز میں ناکام رہا ہے۔جیسا حالات ہیں‘ ہندو رائے دہندے اپنی اکثریت اقلیت کے ساتھ ہی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

عیسائی دوسرا بڑا گروپ ہے مگر دونوں طبقات مذہبی اور شدت پسندگروپس کے ہاتھوں نشانہ بنائے جارہے ہیں وہیں مرکزیت حیثیت کے حامل سیاست داں دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔

احمدی طبقے کو 1970میں غیرمسلم قراردیا گیا ہے اور وہ پاکستان میں خود کوغیر مسلم قراردئے جانے سے ناراض ہے اوراب تک اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیاجس کی وجہہ سے ان کی ایوان پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے

۔درایں اثناء برطانیہ کی سالانہ ہیومن رائٹس رپورٹ برائے 2017میں پاکستان کے اندر پائے جانے والے خدشات کو اجاگر کیاہے کہ خصوص کر ہندوؤں‘ سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلسل امتیازی سلوک او رپریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

رپورٹ میں2017کید وران جبری طور پر تبدیلی مذہب‘ جنری ہندو او رعیسائی عورتو ں سے شادیوں کا ذکر بھی کیاگیا ہے